1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لڑکیوں کی جسامت اور معاشرے کے طے کردہ معیارات کا مسئلہ

23 اگست 2021

ایک وقت تھا کہ جب ہماری فلم انڈسٹری پر فربہی مائل ہیرو اور ہیروئینوں کا راج تھا۔ انجمن اور مسرت شاہین بے شمار فلم بینوں کو بھاتی تھیں۔ ایک لحاظ سے ایسے جسم فلموں کی کامیابی کی ضمانت تھے۔

https://p.dw.com/p/3zN9j
Pakistan Karachi - Pakistanische Models präsentieren von afghanischen Flüchtlingen angefertigten Schmuck
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

اسی طرح عہد ساز اداکار مرحوم محمد علی اپنی بھاری جسامت کے ساتھ ہی طویل عرصہ تک اردو فلم کی کامیابی کی ضمانت بنے رہے۔ پھر وقت آگے سرکا، فلمی ہیرو اور ہیروئینوں کے معیارات تبدیل ہوئے۔ اداکاری کے جوہر سے زیادہ جسم کی پیمائش اور نمائش اہمیت اختیار کر گئی۔ اب ہیرو کے لیے کسرتی جسامت کا حامل دراز قد شخص موزوں ٹھہرا تو ہیروئین کے لیے چھریرے بدن والی نازک اندام حسینہ کا تصور پیدا ہوا، جو وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر مضبوط ہوا کہ عام عوام نے بھی اپنی زندگی کے معیارات انہی تصورات کے مطابق طے کر لیے۔

آج آپ کسی بھی اخبار سے یا ویب سائٹ پر ضرورت رشتہ کے اشتہارات کو اٹھا کر دیکھیں تو مسلسل ایک ہی ڈیمانڈ نظر آئے گی کہ خوبرو ڈاکٹر یا انجینئر بیٹے کے لیے گوری، لمبی، اسمارٹ، پڑھی لکھی، مذہبی لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔ یہ اشتہارات ہمارے معاشرے کے رویّوں، اطوار اور سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ یعنی اگر اپنا بیٹا معاشی طور پر مضبوط ہو تو اس کے لئے مائیں اعلی تعلیم یافتہ، چاند سی، کم عمر بہو ڈھونڈنے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتی ہیں۔ لڑکوں کے ذہن میں بھی خوبصورتی کا تصور ہمارے مواصلاتی ذرائع طے کر چکے ہوتے ہیں۔ ہماری فیشن انڈسٹری بھی صرف اسمارٹ اور دبلی پتلی خواتین کے لیے ہی کپڑے ڈیزائن کرتی ہے۔ تمام ماڈلز بھی انہی معیارات پر پوری اترتی نظر آتی ہیں۔ لیکن اس سارے منظرنامے میں زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ 

DW Urdu Blogerin Tahira Syed
طاہرہ سید، بلاگرتصویر: Privat

موجودہ دور میں اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں بڑھتا ہوا موٹاپا ایسا مسئلہ بن چکا ہے، جو ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔ ماضی میں موٹاپے کا تعلق کھاتے پیتے گھرانوں سے جوڑا جاتا تھا۔ لیکن حالیہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ پوری دنیا میں باسٹھ فیصد موٹے افراد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی ہر دوسرا شخص اس مسئلے کا شکار نظر آتا ہے۔ ہم سب اپنی روزمرہ زندگی میں اپنے اردگرد جسمانی بنیاد پر لوگوں کو تضحیک کا نشانہ بنتے نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ اکثر مذاق اڑانے والوں میں شامل بھی ہو جاتے ہیں۔ موٹاپے کا شکار خواتین کے لیے تو زندگی کسی جہنم سے کم نہیں ہوتی۔ ایسی خواتین اکثر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ وہ ہمیشہ سے اپنے آپ کو ایک بے کار سی شے سمجھتی رہیں۔ کیا یہ ایک المیہ نہیں کہ اگر آپ ایک مخصوص سائز کی جسامت رکھتی ہوں، تب ہی معاشرے میں قابل قبول ہوں گی؟ ہمارے یہاں عموماً باڈی شیمنگ کو غلط خیال ہی نہیں کیا جاتا۔ بلکہ اکثر و بیشتر والدین اور گھر والوں کی طرف سے ہی باڈی شیمنگ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ہمارے یہاں موٹی خواتین جس طرح سے مذاق کا نشانہ بنتی ہیں اور جس طرح ان کے جذبات مجروح کیے جاتے ہیں، ان کی شخصیت بری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے اور وہ اپنا تمام اعتماد کھو بیٹھتی ہیں۔

گزشتہ تین دہائیوں میں پوری دنیا میں سے کوئی ایک ملک بھی موٹاپے کی شرح کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس سلسلے میں صحت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او نے 2025 تک موٹاپے کی روک تھام کے لیے کچھ اہداف مقرر کیے ہیں۔ موٹاپا صحت عامہ کا ایک سنگین مسئلہ ہے، جس کی روک تھام اور آگاہی کے لئے بہت سے اقدامات اٹھائے جانے چاہییں۔ لیکن پاکستان میں اس حوالے سے شعور کی کمی بہت سے مسائل میں اضافے کا باعث ہے۔ ہمارے یہاں خاص طور پر خواتین کی ایک بڑی تعداد گھروں میں غیر فعال زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔ خواتین چاہے گھریلو زندگی گزار رہی ہوں یا ملازمت پیشہ ہوں، ہمارے یہاں ان کی ورزش کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ وزن زیادہ ہونے لگے تو فوری طور پر ڈائٹنگ کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ آج کل تو یہ مسئلہ مزید گھمبیر صورتحال اختیار کر گیا ہے کہ ہر دوسری خاتون سوشل میڈیا سے کوئی بھی الٹا سیدھا ڈائٹ پلان اٹھا کر اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنا شروع کر دیتی ہے۔

 یقیناً آپ سب ذاتی طور پر ایسی بہت سی خواتین کو جانتے ہوں گے، جنہوں نے غلط خوراک سے اپنی صحت اپنے ہاتھوں برباد کر لی۔ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لئے ایک صحت مند ماں کا وجود کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں صورتحال یہ ہے کہ ادھر لڑکی جوان ہوئی نہیں اور ادھر ہر کسی کو اس بات کی فکر ہو جاتی ہے کہ وہ دبلی پتلی اور اسمارٹ نظر آئے تاکہ اچھی جگہ رشتہ طے ہو سکے۔ صحت کے بنیادی اصولوں سے نابلد یہ بچیاں فاقہ کشی کو ڈائٹنگ کا نام دے کر اپنی صحت اپنے ہاتھوں برباد کر لیتی ہیں۔

 چہرے کی زرد رنگت اور ہڈیوں پر منڈھی کھال کو اسمارٹ لک کا نام دے کر یہ لڑکیاں جب شادی کا بار سنھبالتی ہیں تو پہلے قدم پر ہی لڑکھڑا جاتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اگر آپ کا وزن بڑھ رہا ہے تو یقینا آپ کو فکر مند ہونا چاہیے۔ صحت ایک دولت ہے اور موٹاپا بیماریوں کا آغاز ہے۔ صحت کو قائم رکھنے کے لیے موٹاپے کو بھگانا از حد ضروری ہے۔ اپنا خیال اس لیے رکھیے کہ صحت مند رہنا آپ کے اپنے لیے ضروری ہے۔ لیکن ہمارے یہاں بنیادی سوچ یہ ہے کہ میں دیکھنے میں کیسی لگتی ہوں؟ اگر میں دیکھنے میں موٹی لگ رہی ہوں تو مجھے ان طے کئے گئے پیمانوں میں اپنے آپ کو فٹ کرنا ہو گا۔ اکثر نوجوان لڑکیاں اس تشویش میں مبتلا ہوجاتی ہیں کہ وہ موٹی لگ رہی ہیں اور بغیر سوچے بغیر سمجھے ڈائٹنگ شروع کر دیتی ہیں۔

جب کہ پوری دنیا میں پلس سائز کا تصور پنپ رہا ہے۔ فربہ ماڈلز ایسے کپڑے پہن کر ریمپ پر واک کرتی نظر آتی ہیں، جو فربہی مائل خواتین کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم ابھی ذہنی طور پر اتنے پختہ نہیں ہوئے کہ اس تصور کو اپنا سکیں۔ گو کہ پاکستان میں بھی ایک فیشن ڈیزائنر نے پلس سائز کے ڈیزائن متعارف کروائے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے مزید آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے کہ صحت مند رہنا اور اپنے آپ کو صحت مند رکھنا ایک الگ بات ہے۔ جبکہ ایک اچھے رشتے کی تلاش میں خود کو غذائی قلت کا شکار کر لینا ایک بالکل دوسری بات ہے۔ اس حوالے سے اجتماعی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں موٹی لڑکیوں کے والدین ان کے رشتوں کے حوالے سے کس اذیت سے گزرتے ہیں۔ چاہے وہ جتنی بھی اعلی تعلیم یافتہ اور اعلی سیرت کی حامل ہوں۔ تمام خوبیوں پر ایک بات حاوی ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کی طے کردہ پیمائش کے مطابق جسامت نہیں رکھتیں۔ پھر بالآخر انہیں کسی غیر موضوع شخص کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے۔ نکاح کے لیے ایک لڑکی کا انتخاب آپ کے خاندان کی بنیاد رکھتا ہے۔ اس لڑکی نے آپ کی آنے والی نسل کی تربیت کا بار اٹھانا ہوتا ہے۔ تو کیا اسے انتخاب کے لئے یہ معیار کافی ہے کہ وہ کس پیمائش کی جسامت رکھتی ہے؟ کیا لڑکیوں کو اس ذہنی دباؤ کا شکار کرنے کے ذمہ دار ہم سب نہیں ہیں؟ کیونکہ یہ معیارات ہمارے طے کردہ ہیں۔