ليبيا کی قومی عبوری کونسل، سياسی نظام الاوقات
12 ستمبر 2011ليبيا کی قومی عبوری کونسل کے چئيرمين محمود جبريل اگلے دس دنوں کے اندر ايک عبوری حکومت تشکيل دينا چاہتے ہيں۔ انہوں نے طرابلس ميں کہا کہ يہ عبوری حکومت ملک کے تمام علاقوں کے نمائندوں پر مشتمل ہو گی: ’’نئی حکومت ميں مغربی اور مشرقی شہروں اور صوبوں، عبوری کونسل کے اراکين اور جنوب اور شمال کے نمائندے اور اُن زير محاصرہ علاقوں کے نمائندے بھی شامل ہوں گے، جو قذافی کے حاميوں کے قبضے ميں ہيں۔ يہ عبوری حکومت عبوری قومی کونسل کے فيصلوں کو عملی شکل دے گی۔‘‘
ليبيا کی قومی عبوری کونسل نے اگست ہی ميں يہ اعلان کر ديا تھا کہ آٹھ مہينوں کے اندر ايک آئين ساز اسمبلی کی تشکيل کے ليے انتخابات کرائے جائيں گے۔ اس کے بعد ايک سال کے اندر پارليمانی اور صدارتی انتخابات منعقد کرائے جائيں گے۔ اس طرح يہ اگلے 20 مہينوں کا سياسی نظام الاوقات ہے۔
ظاہر ہے کہ ليبيا کی قومی عبوری کونسل ماليات کے ليے ملک کی سب سے قيمتی شے تيل ہی پر بھروسہ کر رہی ہے۔ ليبيا ميں افريقہ کے تيل کے سب سے بڑے ذخائر ہيں۔ معمر القذافی کے خلاف ہنگامے شروع ہونے سے قبل يہ ملک تيل کا 80 فيصد حصہ يورپ کو برآمد کرتا تھا۔ ليکن چھ ماہ کی بغاوت کے دوران تيل کی پيداواراور برآمد تقريباً رک گئی تھی۔
اس دوران يورپی آئل فرمز دوبارہ تيل کی کھدائی کے ليے تيار کھڑی ہيں۔ عبوری کونسل کے چئيرمين محمود جبريل نے کہا کہ پچھلے سنيچر ہی سے تيل دوبارہ نکالا جا رہا ہے: ’’ہم نے تيل کی پيداوار دوبارہ شروع کردی ہے، ليکن ميں نہيں بتانا چاہتا کہ کن کنؤوں ميں۔ ہم تيل اور گيس دوبارہ مغربی ممالک کو بھی فراہم کريں گے۔‘‘
جبريل کا انداز محتاط ہے۔ وہ اس سے پہلے کہ چکے ہيں کہ قذافی اب بھی ايک خطرہ بنے ہوئے ہيں اور وہ اب بھی اپنے حاميوں کو متحرک کر سکتے ہيں۔
اس دوران قذافی کے ايک اور بيٹے سعدی کے نائجر چلے جانے کی اطلاعات مل چکی ہيں۔ ليکن يہ معلوم نہيں ہے کہ خود قذافی کہاں ہيں۔
رپورٹ: بيورن بلاشکے، قاہرہ / شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی