1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لوگ جسے چاہیں ووٹ دیں، پاکستانی فوج

بینش جاوید
10 جولائی 2018

پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج کا عام انتخابات میں کوئی ’براہ راست‘ کردار نہیں ہے۔ فوج پاکستان کے الیکشن کمیشن کے ساتھ ان کے قوانین کے مطابق تعاون کرے گی۔

https://p.dw.com/p/318nA
Pakistan Asif Ghafoor
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے 25 جولائی کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات سے متعلق کہا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ انتخابات کے دوران پاکستان کی فوج کو تعینات کیا جائے گا۔ اس سے قبل 1997ء، 2002ء اور 2008 میں بھی فوجیوں کو تعینات کیا گیا تھا۔ اب 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ فوجی تعینات کیے جائیں گے۔

پریس کانفرنس میں شامل کئی صحافیوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر سے پاکستان کی فوج میں انتخابات سے قبل مبینہ طور پر کسی ایک سیاسی جماعت کی مخالفت اور کسی ایک سیاسی جماعت کی حمایت سے متعلق سوالات کیے۔ آصف غفور نے ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا،’’ پاکستان میں کون سے ایسے انتخابات تھے جب سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزمات عائد نہ کیے ہوں، کون سے ایسے انتخابات تھے، جن سے پہلے سیاسی جماعتوں کے اراکین نے جماعتیں تبدیل نہیں کیں، کون سے ایسے انتخابات تھے، جب ہار سے خوفزدہ سیاسی جماعت نے یہ الزام نہ لگایا ہو کہ انہیں ہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں دوسری سیاسی جماعتوں کو نیچا دکھا کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔‘‘

آصف غفور نے کہا کہ پاکستانی فوج گزشتہ پندرہ سال سے بقا کی جنگ لڑ رہی تھی۔ انہوں نے کہا،’’جس ماحول میں آج الیکشن مہم چلائی جارہی ہے 2013ء میں ایسا ماحول نہیں تھا۔ تب سیاسی جماعتوں کو دہشت گردوں کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں، ان کی انتخابی مہم متاثر ہوئی آج ایسا ماحول نہیں ہے۔‘‘ 

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آصف غفور نے کہا کہ میڈیا کے  ٹاک شوز میں سب کو گفتگو کرنے کی اجازت ہے، ہر کوئی  اپنی  بات کھل  کر کر سکتا ہے  اور یہ بھی جمہوریت کا حصہ ہے کہ کوئی امیدوار اپنی مرضی سے سیاسی جماعت تبدیل کرسکتا ہے۔

پاکستان کی فوج پر پاکستان مسلم لیگ نون کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ انہیں انتخابات سے قبل دیوار سے لگا رہے ہیں۔ یہ سیاسی جماعت پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کا ذمہ دار بھی فوج کو قرار دیتی ہے۔ دوسری جانب بین الاقوامی میڈیا میں بھی پاکستانی فوج کو انتخابات میں مبینہ مداخلت کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس نیوز کانفرنس کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر کافی تبصرے کیے جارہے ہیں۔

  صحافی مبشر زیدی نے اس پریس کانفرنس کے حوالے سے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’  فوج کی طرف سے انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی مبینہ کوششوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوالوں کے ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے دیے گئے، جوابات کو بمشکل ہی قائل کر دینے والے کہا جاسکتا ہے۔‘‘

جیو نیوز کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ کے پروڈیوسر اور صحافی ثاقب تنویر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’آرمی کا یہ کہنا کہ وہ آزادانہ اور شفاف انتخابات چاہتے ہیں حیران کن نہیں ہے۔ کوئی بھی ادارہ یا کوئی شخص جو انتخابات میں مبینہ طور پر مداخلت کر رہا ہو وہ اس کا اعتراف نہیں کرے گا۔‘‘ تنویر کا کہنا ہے کہ ماضی کے چند واقعات کچھ اور ہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’سیاسی امیدواروں کا آخری وقت میں اپنی جماعتوں کو تبدیل کرنا، میڈیا پر پابندیاں، نیب کا صرف پاکستان مسلم لیگ نون پر توجہ مرکوز رکھنا اور ایسی ہی کڑی نظر پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں پر نہ رکھنا ، بلوچستان میں مسلم لیگ نون کی حکومت کا ہٹائے جانا، اور سینیٹ انتخابات، ثابت کرتا ہے کہ اس سب کے پیچھے کسی کا ہاتھ ہے۔‘‘

کالم نویس شنیلہ سکندر نے اسلام آباد سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ یہ ایک وضاحتی پریس کانفرنس لگی۔ کلعدم تنظیموں کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر  نے اس معاملے کو الیکشن کمیشن کا معاملہ ٹہرا دیا، لیکن یہ جواب ناکافی ہے، پاکستان کا نام کیوں گرے لسٹ میں آیا ہے یہ سب جانتے ہیں؟‘‘ شنیلہ کہتی ہیں کہ بطور ایک سکیورٹی ادارے کے آرمی کے پاس بھی اختیارات ہیں اور وہ اپنی رائے دے سکتے ہیں کہ یہ کالعدم تنظیمیں سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور ان کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دینے چاہے۔‘‘

شنیلہ کا کہنا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر ان لوگوں کو بھی مطمئن نہیں کر پائے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی فوج عمران خان کی سیاسی جماعت کی حمایت کر رہی ہے۔اس حوالے سے  ابھی بھی بہت سی چیزیں تشنہ رہ چکی ہیں۔ شنیلہ نے کہا،’’ یہ کہہ دینا کہ انتخابی نشان ’جیپ‘ سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہے، کافی نہیں ہے۔ اس جواب سے لوگوں کے خدشات  ختم نہیں ہوں گے۔‘‘ شنیلہ کہتی ہیں کہ اس وقت ملک میں سلامتی کی صورتحال گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں کافی بہتر ہے، لیکن پھر بھی ساڑھے تین لاکھ سے زائد  فوج  کو  انتخابات میں ملک بھر میں تعینات  کیا جائے گا۔ شنیلہ نے کہا،’’ آپ آرمی والے کو ایک مجسٹریٹ کا درجہ دے رہے ہیں۔ آرمی کی جانب سے انتخابی نتائج کو منتقل کرنے اور بیلٹ باکس کی ذمہ داری، پولنگ اسٹیشن کے اندر  اور باہر تعیناتی لوگوں کے ذہنوں میں سوالات اٹھائے گی۔‘‘