1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لندن میں ’اسلاموفوبیا اور نسل پرستی‘ کے خلاف بڑا مظاہرہ

عاطف توقیر
17 مارچ 2018

ہزاروں افراد نے برطانوی دارالحکومت لندن میں نسل پرستی، اسلاموفوبیا اور نفرت انگیزی کے خلاف ہفتے کو مارچ کیا۔

https://p.dw.com/p/2uWgx
UK Demo gegen Rassismus in London
تصویر: DW/A. Tauqeer

برطانیہ میں چند ہفتوں سے آن لائن اور آف لائن ایسے پمفلٹس دکھائی دیے، جن میں مسلمانوں پر حملوں کی ترویج کی جا رہی تھی۔ punish a Muslim یا مسلمان کو سزا دو نامی اس نفرت انگیز مہم میں لوگوں کو مسلمانوں پر حملوں کے لیے اکسایا جا رہا تھا اور سلسلے میں تین اپریل کو حملوں کا دن تک مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم اس مہم کے خلاف ہزاروں برطانوی شہری سڑکوں پر نکل آئے۔
احتجاجی مظاہرہ لندن کے مرکزی علاقے آکسفورڈ اسٹریٹ سے شروع ہوا ور مشہور علاقے پکیڈیلی سرکس سے ہوتا ہوا ٹریفہالگر اسکوائر کی طرف بڑھا۔ اس مارچ میں مختلف رنگوں، نسلوں، مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے حصہ ليا۔ مظاہرين  نے جو پلے کارڈز اٹھا رکھے تھا، ان پر مندرجہ ذيل پيغامات درج تھے، ’ہم نسل پرستی کو مسترد کرتے ہیں‘، ’اسلاموفوبیا نامنظور‘، ’مہاجرین کو خوش آمدید‘، ’مہاجرین کی ملک بدریاں بند کرو‘ اور ’انسانوں میں تفریق، اب نہیں۔‘

UK Demo gegen Rassismus in London
تصویر: DW/A. Tauqeer

لندن کی کثیرالثقافتی زندگی کے اظہار کے لیے مارچ کے راستوں پر مختلف ثقافتوں کے افراد اپنے اپنے آبائی ممالک کی موسیقی بھی پیش کر رہے تھے۔
 

یہ بات اہم ہے کہ برطانیہ سمیت یورپ بھر میں حالیہ کچھ عرصے میں مسلم مخالف اور مہاجرین مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے اور اسی تناظر میں مختلف یورپی ممالک میں اسلاموفوبیا کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف سخت بیانیوں کا استعمال کرنے والی تنظیموں اور تحریکوں کی عوامی پذیرائی میں اضافہ ہوا ہے۔
 

لندن ہی میں چند ماہ قبل مسلمانوں سمیت غیر ملکیوں پر تیزاب کے حملوں کی اطلاعات بھی سامنے آئیں تھی، جب کہ نفرت انگیزی سے جڑے حملوں میں بھی اضافے کے واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
لندن میں سردی کی شدید لہر اور درجہ حرارت نکتہ انجماد سے کہی درجے نیچے گر جانے پر کہا جا رہا تھا کہ شاید اس مارچ میں شریک افراد کی تعداد پر فرق پڑے، تاہم موسمی حالات کا اس مظاہرے پر کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔

UK Demo gegen Rassismus in London
تصویر: DW/A. Tauqeer

مارچ میں شریک ایک 24 سالہ طالبہ کیتھرین کا کہنا تھا، ’’ہم یہاں اس مارچ میں اس لیے شریک ہوئے ہیں تاکہ ایک واضح پیغام دیا جائے اور وہ پیغام یہ ہے کہ ہم اس شہر اور اس ملک میں نسل پرستی قبول نہیں کریں گے۔‘‘


لندن میں مقیم پاکستان سے تعلق رکھنے والے صحافی فرید قریشی کا کہنا تھا کہ حالیہ کچھ عرصے میں جس انداز سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جذبات میں اضافہ ہوا ہے، ایسے میں یہ مارچ نہایت ضروری اور بروقت ہے، تاکہ نفرت انگیزی کو ہوا دینے والوں کو روکا جا سکے۔