لبنان کے مسیحی زیادہ مغربی حمایت کے خواہاں
12 ستمبر 2012ویسے بھی کسی شعبے میں اُن کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا۔ اس کے باوجود اُن کی خواہش ہے کہ مغربی دُنیا میں اُن کا موقف اور بھی زیادہ توجہ سے سنا جائے۔ لبنان کے مسیحی امید کر رہے ہیں کہ پاپائے روم کے دورے سے وہ ایک بار پھر بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن سکیں گے۔
بیروت کے وسط میں واقع سینٹ جارج کیتھیڈرل عقیدت مندوں سے بھرا ہوا ہے، جن میں لبنان کے بزرگ ہی نہیں، بہت سے نوجوان مسیحی بھی شامل ہیں۔ بیروت کے یہ مارونی مسیحی ایک مشترکہ مذہبی سروس کے لیے جمع ہوئے ہیں اور لوگوں کو پاپائے روم کے دورے کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں۔
انہی میں پادری انتوآں آصف بھی شامل ہے، جو ایک ایک کر کے وہاں موجود حاضرین کے پاس جا رہا ہے اور تقریباً سبھی کے ساتھ ہاتھ بھی ملا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہاں سب اُسے اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ پادری آصف بتاتے ہیں: اوٹون
’’خانہ جنگی سے بہت نقصان ہوا تھا۔ اگرچہ اب خانہ جنگی تھم چکی ہے لیکن لبنان میں تناؤ کی فضا ابھی بھی موجود ہے۔ خاص طور پر اپنے مذہب کے ساتھ قریبی طور پر جڑے عقیدت مند ہمیشہ خوف کا شکار رہتے ہیں۔ لیکن یہی خوف ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے مذہب پر اور بھی زیادہ سختی سے کاربند رہتے ہیں۔‘‘
ایک اسکرین پر کیتھولک کلیسا کے سربراہ کے بارے میں ایک مختصر فلم دکھائی جاتی ہے، جس کے بعد شام کی مذہبی سروس شروع ہوتی ہے۔ پادری آصف حضرتِ عیسیٰ کے ابتلا پر بات کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی لبنان میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں۔ پاپائے روم کے دورے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: اوٹون
’’اس دورے سے مسیحیوں کے ہاں بھی اور امید ہے کہ باقی تمام انسانوں کے ہاں بھی اس بات کی یاد تازہ ہو گی کہ جغرافیائی اعتبار سے مسیحیت کی ابتدا یہاں مشرقِ وُسطیٰ میں ہوئی تھی۔ لوگوں کے خیال میں پوپ کے دورے سے دنیا کو یہ پتہ چلے گا کہ لبنان اور مشرقِ وُسطیٰ میں مسیحی بستے ہیں۔‘‘
پادری آصف کے مطابق لبنان کے مسیحیوں کی حالت باقی عرب ممالک میں بسنے والے مسیحیوں سے بہتر ہے۔ سینٹ جارج کیتھیڈرل میں باقاعدگی سے جانے والی ایک مسیحی خاتون نے بتایا کہ اُسے قریبی مسلمان ممالک میں بڑھتے ہوئے انتہا پسندانہ رجحانات پر کوئی پریشانی نہیں ہے: اوٹون
’’میرے پڑوسی مسلمان ہیں اور ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ ہمارے درمیان خلیج سیاستدان پیدا کرتے ہیں کیونکہ انہیں اقتدار چاہیے ہوتا ہے۔ ہم عام لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ وہ ہمیں آرام سے رہنے دیں۔‘‘
کیتھولک کلیسا کے سابق سربراہ آنجہانی جوہانیس پال دوم نے 1997ء میں لبنان کا دورہ کیا تھا اور لبنان کو اسلام اور مسیحیت کے درمیان مکالمت کا گہوارہ قرار دیا تھا۔
D. Hodali/aa/ab