1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان میں مظاہرے: ’بیروت تم انقلاب کا دارالخلافہ ہو‘

شمشیر حیدر ڈی پی اے کے ساتھ
9 اگست 2020

بیروت دھماکوں کے بعد شہری اب بھی صدمہ زدہ ہیں اور غم و غصے سے بھرپور بھی۔ حکمران اور سیاسی اشرافیہ کی جانب سے عوام کو پرسکون رکھنے کی کوششیں ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔ مظاہرین نے متعدد حکومتی دفاتر پر قبضہ کر رکھا ہے۔

https://p.dw.com/p/3ggYB
Libanon Proteste in Beirut
تصویر: Reuters/H. McKay

مظاہروں کی شدت دیکھتے ہوئے ہفتہ آٹھ اگست کی شام لبنانی وزیر اعظم حسن دیاب نے اپنے نشریاتی خطاب میں قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کرانے کی تجویز بھی دے دی۔ اس کے باوجود عوامی غم و غصے میں کمی نہیں ہوئی اور ہفتے کی رات مظاہرین نے ملکی وزارت خارجہ سمیت کئی سرکاری عمارتوں میں داخل ہو گئے۔

مظاہرین نے ملکی پارلیمان میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی جس پر سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں آنسو گیس کے شیل پھینک کر منتشر کرنے کی کوشش کی۔ پولیس اور مظاہرین کے مابین جھڑپوں کے باعث کم از کم ڈھائی سو افراد زخمی ہو گئے، جن میں 65 کو ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ اس دوران ایک پولیس اہلکار ہلاک بھی ہوا۔

بیروت میں امونیم نائٹریٹ کی بڑی مقدار پھٹنے سے ہونے والا دھماکا اس قدر شدید تھا کہ ماہرین کے مطابق اسے ایک بڑا دھماکا کہنے کی بجائے ایک چھوٹا ایٹمی دھماکا کہنا غلط نہ ہو گا۔ شہر کا وسیع علاقہ اس دھماکے کے باعث کھنڈر کا منظر نامہ پیش کر رہا ہے اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دھماکے کی جگہ پر پڑنے والے گڑھے کی گہرائی 141 فٹ ہے۔

'وزارت خارجہ انقلاب کا صدر دفتر ہو گا‘

بیروت دھماکوں کے فوری بعد تو مقامی افراد صدمے کی کیفیت میں رہے۔ لیکن پھر صدمہ غصے میں بدلنا شروع ہو گیا اور ہزاروں افراد شہر کی سڑکوں پر نکل پڑے۔ ہفتے کی شام بھی بیروت کے شہدا چوک پر دس ہزار سے زائد افراد جمع تھے۔ ان افراد نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور جواب میں پولیس ان پر آنسو گیس کے شیل پھینک کر انہیں منتشر کرنے کی کوشش کرتی رہی۔

Libanon Proteste in Beirut | Aussenministerium
تصویر: Reuters/L. Francis

لبانی وزارت خارجہ کے دفتر پر قبضے کے بعد سمیع رامہ نامی ایک ریٹائرڈ افسر نے عمارت کے سامنے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے مظاہرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ''وزارت خارجہ کی عمارت اب سے انقلاب کا مرکزی دفتر ہو گی۔‘‘

صدر میشال عون اور حکمران اشرافیہ کی تصویروں والے پوسٹرز نذر آتش کرنے کے بعد عمارت کی سیڑھیوں پر ایک اور بڑا سا پوسٹر دکھائی دیا جس پر درج تھا، 'بیروت انقلاب کا دارالخلافہ ہے‘۔

کرپٹ اشرافیہ کے خلاف اتنا غصہ کیوں؟

عوام کرپشن اور بدعنوان اشرافیہ سے بیزار ہے اور دھماکے بعد لبنانی عوام کے جذبات دراصل اسی چیز کا ایک تسلسل بھی ہے۔ لبنان کی معاشی صورت حال انتہائی مخدوش ہے اور ملک میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ کورونا وبا سے پہلے بھی مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ لاک ڈاؤن نے صورت حال مزید خراب کی اور اس کے بعد یہ دھماکا لبنانی شہریوں کے لیے 'بری قسمت‘ ثابت ہوا۔

بیروت دھماکے، لبنان میں تین روزہ سوگ

ڈی ڈبلیو کے بیروت سے نمائندے باسل العریضی کے مطابق لبنانی معاشرہ کئی حوالوں سے منقسم بھی ہے لیکن کرپٹ اشرافیہ کے خلاف پائے جانے والے جذبات سبھی میں قریب یکساں ہیں۔

باسل کے مطابق دھماکے کی وجوہات کے بارے میں بھی دو آرا پائی جاتی ہیں، ''کچھ لوگوں کو یقین ہے کہ دھماکا بیرونی قوتوں نے کروایا، جب کہ کچھ مانتے ہیں کہ کرپٹ حکمرانوں کی لاپرواہی اس تباہی کی وجہ بنی۔ لیکن موجودہ مظاہروں سے ایک چیز واضح ہے کہ اب وہ سیاست دانوں کی تقریروں پر اعتماد نہ کرنے کے بارے میں متحد ہیں۔‘‘

'عالمی برادری لبنان کی مدد کو تیار‘

فرانسیسی صدر دھماکوں کے بعد بیروت پہنچنے والے پہلے غیر ملکی رہنما تھے۔ لبنان دو عالمی جنگوں کے درمیانی عرصے میں 25 برس تک فرانس کے زیر انتظام رہا تھا اور دھماکوں کے بعد ایک آن لائن پٹیشن میں ہزاروں لبنانی شہریوں نے پیرس حکومت سے لبنان کو دوبارہ اپنے انتظام میں لینے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

صدر ماکروں نے بھی لبنانی عوام کو یقین دلایا تھا کہ وہ لبنان میں ایک 'نئے سیاسی منظر نامے‘ کے بارے میں لبنانی حکمرانوں سے بات کریں گے۔

آج نو اگست بروز اتوار اقوام متحدہ اور فرانس کی مشترکہ میزبانی میں لبنان کی امداد کے حوالے سے کانفرنس شروع ہو رہی ہے۔ اس ورچوئل کانفرنس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شریک ہوں گے۔

جرمنی نے لبنان کو فوری طور پر دس ملین یورو کی مالی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ نے امدادی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بیروت میں ہونے والے دھماکوں کے بعد وہاں کے عوام کو زندہ رہنے کے لیے فوری طور پر مدد کی ضرورت ہے۔

لیکن شاید عالمی برادری کی جانب سے صرف مالی امداد کی فراہمی لبنانی عوام کے جذبات ٹھنڈے کرنے کے لیے ناکافی ہو گی۔

ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بیروت کی رہائشی سونیا نقاد نے کہا، ''ہمارے لیے کچھ کرنا ہے تو مالی امداد نہیں بلکہ لبنان کے کرپٹ سیاست دان طبقے کو اقتدار سے الگ کرنے میں مدد کریں۔ یہی لوگ تو ملک کو اس نہج تک لائے ہیں۔‘‘

Libanon Proteste in Beirut
لبنانی عوام میں حکمران اشرافیہ کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہےتصویر: Reuters/L. Francis

لبنان کے عوامی جذبات کی گونج صرف 'مشرق وسطیٰ کے پیرس‘ بیروت ہی میں نہیں سنائی دے رہی بلکہ اب عالمی طاقتوں اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ کئی عالمی رہنما، چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی، ان لبنانی شہریوں کی آواز کی تائید کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

گزشتہ شب ہی بیروت میں امریکی سفارت خانے کی ٹوئٹر ہینڈل سے پیغام لکھا گیا، ''لبانی عوام نے بہت زیادہ تکالیف اٹھائی ہیں اور ان کا یہ حق ہے کہ انہیں ایسے رہنما ملیں جو ان کی آواز سنیں۔‘‘