1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان میں داعش کے مشتبہ شدت پسند کے ہاتھوں چار فوجی ہلاک

15 ستمبر 2020

لبنان میں فورسز نے ایک مبینہ شدت پسند کی گرفتاری کے لیے گھر پر چھاپے کی کارروائی کی تھی جس کے دوران مشتبہ شخص کے حملے میں چار لبنانی فوجی ہلاک ہوگئے۔ سکیورٹی فورسز اب بھی اس گروہ سے وابستہ دیگر افراد کی تلاش میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/3iTVH
Libanon | Soldaten
تصویر: Getty Images/AFP/P. Baz

لبنان میں سکیورٹی فورسز نے ساحلی شہر طرابلس کے پاس ایک مبینہ شدت پسند کی گرفتاری کے لیے پیر کی صبح چھاپہ مارا تھا جس کے دوران مشتبہ شخص نے فورسز پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی اور گرینیڈ پھینکے جس کی وجہ سے چار لبنانی فوجی ہلاک ہوگئے۔ مشتبہ شخص کا تعلق شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے بتایا جاتا ہے اور حکام اس شخص کو حراست میں لینا چاہتے تھے۔ لیکن بعد میں فوج نے اس شخص کو بھی فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔

لبنان کی سرکاری میڈیا کے مطابق سکیورٹی فورسز نے خالد الطلّاوی کو حراست میں لینے کی کوشش کی تھی۔ طلاوی پر دو مقامی پولیس افسران اورگزشتہ ماہ کفتون شہر کے میئر کے بیٹے کی ہلاکت کا الزام تھا۔ ان پر مقامی سطح پر شدت پسندوں کی ایک تنظیم کی قیادت کرنے کا بھی الزام ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک سینیئر فوجی افسر کے حوالے سے خبر دی ہے کہ یہ واقعہ شمالی لبنان کے ساحلی شہر طرابلس کے پاس واقع بیداوی علاقے کا ہے۔ حکام کے مطابق جب سکیورٹی فورسز نے طلّاوی کو حراست میں لینے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تو انہوں نے اچانک فائرنگ شروع کر دی اور سکیورٹی فورسز پر گرینیڈ پھینکے اور یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ چار فوجی اس کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے۔

لبنان کی ایک نوجوان لڑکی ’آٹو مکینک‘

فوج کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سکیورٹی فورسز نے طلّاوی اور ان کے دیگر ساتھیوں کا جب تعاقب کیا تو طلّاوی تو فوج کی فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے تاہم دیگر ساتھیوں کی تلاش کا کام اب بھی جاری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ قتل و غارت گری کے سلسلے میں اس گینگ کے کئی افراد کی تلاش گزشتہ ایک ماہ سے جاری تھی۔ پولیس کا کہنا ہے بیداوی میں فلسطینی پناہ گزینوں کا جو کیمپ ہے وہاں سے ایک شخص کو گزشتہ ماہ گرفتار کیا گیا تھا۔

لبنانی دارالحکومت بیروت میں گزشتہ ماہ کے اوائل میں ہونے والے دھماکے میں تقریباً پونے دو سو افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے بعد ہونے والے مظاہروں کے سبب حسن دیاب کی حکومت مستعفی ہوگئی تھی اور پھر جرمنی میں لبنان کے سفیر مصطفی ادیب نے نئی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔  ان  کے دور اقتدار میں شدت پسندی کا یہ پہلا بڑا واقعہ ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں