1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان میں لاپتا افراد کے لیے تاریخی قانون سازی

13 نومبر 2018

لبنان میں پیر کے روز وہ تاریخی قانون منظور کر لیا گیا ہے، جس کے تحت خانہ جنگی کے دور میں لاپتا ہو جانے والوں سے متعلق تفتیش کی جائے گی اور ان گم شدگیوں کے درپردہ افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/389cV
Mindestens 10 Tote nach Anschlag in Tripoli, Libanon
تصویر: picture alliance/AP Photo

انسانی حقوق کی تنظمیوں کے مطابق لبنان میں سن 1975 تا 1990 تک جاری رہنے والے مسلح تنازعے میں ہزاروں افراد گم شدہ ہو گئے تھے، تاہم ان افراد کے اہل خانہ کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کے جواب کے لیے قانون سازی نہیں ہو پا رہی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل یہ مطالبہ کرتی آئی ہیں کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے، تاکہ متاثرہ خاندانوں کی دلی جوئی ہو سکے۔

لاپتہ مہاجرین کہاں ہیں؟

لاپتا زینت شہزادی دو برس بعد بازیاب

لبنان کے سرکاری میڈیا کے مطابق، ’’پارلیمان نے پیر کی شام جبری گم شدگیوں سے متعلق  قانون کی منظوری دے دی ہے۔‘‘

اس قانون کے تحت ایک باقاعدہ کمیشن گم شدہ یا جبری طور پر لاپتا ہو جانے والے افراد سے متعلق تفصیلی جانچ کرے گا۔

اس قانون میں لاپتا افراد کے اہل خانہ کو یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گم شدہ رشتہ دار سے متعلق تفصیلات جان سکتے ہیں اور ان کی شناخت اور جائے تدفین تک کی معلومات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

اس قانون کے تحت جبری گم شدگیوں میں ملوث افراد کو پندرہ برس قید اور بیس ملین لبنانی پاؤنڈ (تیرہ ہزار ڈالر) جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ لبنانی خانہ جنگی میں شامل متعدد جنگی سردار ملکی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے متاثرہ افراد اور ان کے اہل خانہ کو انصاف مل سکے گا۔

بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کی جانب سے اس موضوع پر ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا گیا ہے، ’’یہ ان ہزاروں خاندانوں کے لیے ایک مثبت قدم ہے جو اپنے گم شدہ پیاروں کی بابت تفصیلات چاہتے ہیں۔‘‘

اس پیغام میں مزید کہا گیا، ’’ہم اس قانون پر عمل درآمد کے لیے حکومت کی معاونت کے لیے تیار ہیں تاکہ متاثرہ خاندانوں کو ان سوالات کے جوابات مل سکیں جن کا وہ ایک طویل عرصے سے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

ع ت، ش ح (روئٹرز، اے ایف پی)