لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے تحقیقاتی کمیشن کا اجلاس
10 مئی 2010لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے قائم کمیشن کی سربراہی جسٹس ریٹائرڈ کمال منصور عالم کر رہے ہیں جبکہ دیگر ممبران میں جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال اور جسٹس ریٹائرڈ فضل الرحمان شامل ہیں۔ کمیشن نے اپنی کارروائی کے پہلے روز جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی کےلئے قائم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس نامی تنظیم کے عہدیداروں سے معلومات اکٹھی کیں۔ اس تنظیم کے ارکان کی اکثریت گمشدہ افراد کے لواحقین پر ہی مشتمل ہے۔ راولپنڈی کے لاپتہ تاجر مسعود جنجوعہ کی اہلیہ اور ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود نے تحقیقاتی کمیشن کے اجلاس میں شرکت کے بعد دوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ” اس چیز سے ہم بہت افسردہ ہیں کہ پانچ چھ سال کے بعد بھی ہم کمیشن کو بریفنگ دیں گے ، انہیں سمجھائیں گے کہ مسائل کہاں سے پیدا ہو رہے ہیں اور کہاں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، ہم کس طرح معاشی طور پر بدحال ہو چکے ہیں اور ہمارے بچے باپ کی شفقت سے محروم ہیں اور کتنے ہی اپنے بچوں کو دیکھے بغیر مر گئے مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے حقوق کےلئے پھر ایک بار ابتداءکر رہے ہیں۔“
آمنہ مسعود کے مطابق اس وقت ان کے پاس مبینہ طور پر لاپتہ 3500 افراد کی فہرست موجود ہے تاہم بقول ان کے ان میں سے ابھی تک صرف 820 کی تصدیق ہو سکی ہے جبکہ باقی لوگوں کی تصدیق کا کام جاری ہے۔ چھ سال قبل ایبٹ آباد سے مبینہ طور پر خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں اغواءکئے جانے والے سائنسدان عتیق الرحمان کی والدہ اپنے اکلوتے بیٹے سے جدائی کے لمحات کو کچھ اس طرح بیان کرتی ہیں ” روتے روتے میری ہمت جواب دے گئی ہے اور مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا کروں .... ان لوگوں نے جہاں بھی میرے بیٹے کو رکھا ہے اور اس نے جو گناہ کئے ہیں ، خدا کے لئے بس ایک بار اس کی آواز مجھے سنا دیں میں اس کے بغیر مر رہی ہوں، باپ بالکل پاگل ہو چکے ہیں، چھ بہنوں کی زندگی برباد ہو گئی ہے۔“
گزشتہ سال جون میں راولپنڈی سے اٹھائے جانے والے ایک پراپرٹی ڈیلر کی اہلیہ عائشہ نے اپنے لاپتہ خاوند کی گرفتاری کا واقعہ سناتے ہوئے دوئچے ویلے کو بتایا ” جب میرے خاوند کو گرفتار کر کے لے جا رہے تھے اس وقت کچھ اہلکار پولیس وردی میں تھے لیکن انہوں نے نیم پلیٹ نہیں لگا رکھی تھی جبکہ زیادہ تر سول کپڑوں میں تھے۔ میرے خاوند بار بار پوچھتے رہے کہ میں نے کیا کیا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ چپ کر کے ہمارے ساتھ چلو۔ اس وقت سے اب تک ان کا کوئی علم نہیں۔“
خیال رہے کہ بلوچ قوم پرستوں کا بھی دعویٰ ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر آٹھ ہزار بلوچوں کو اغواءکر رکھا ہے لیکن مرکزی حکومت ہمیشہ اس دعوے سے انکار کرتی آئی ہے۔ ادھر لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے قائم عدالتی کمیشن اپنی کارروائی ایک ہفتے تک مسلسل جاری رکھے گا اور ممکنہ طور پر کمیشن کے ارکان چاروں صوبوں کا بھی دورہ کریں گے۔
شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت کشور مصطفیٰ