1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قندوز، ’کم ازکم چالیس بچے بھی مارے گئے‘

5 اپریل 2018

افغان صوبے قندوز میں رواں ہفتے طالبان کے خلاف کی گئی ایک فضائی کارروائی کے نتیجے میں شہری ہلاکتوں کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔ ایک مقامی رہائشی کے مطابق اس حملے میں کم ازکم چالیس بچے بھی مارے گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/2vX3x
Afghanistan Kunduz Opfer nach Luftangriff
تصویر: picture-alliance/AP

پیر کے دن افغان فضائیہ نے صوبہ قندوز کے ضلع دشت ارچی میں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔ حکومتی بیانات کے مطابق طالبان کے زیر کنٹرول اس ضلع میں کی گئی فضائی کارروائی میں جنگجو ہی مارے گئے تاہم مقامی ذرائع کے مطابق اس کارروائی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ تاہم اس حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں۔

افغان صوبے قندوز میں مدرسے پر فضائی حملہ، درجنوں ہلاکتیں

قندوز میں شہری ہلاکتوں کا قوی امکان ہے، اقوام متحدہ

افغانستان: فضائی حملوں میں پچاس فیصد سے زائد شہری ہلاک

پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب میں تیزی

مقامی حکام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے اس حملے کی وجہ سے طالبان تو مارے ہی گئے ہیں تاہم ساتھ ہی شہری ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ قندوز صوبے کے گورنر کے ترجمان نعمت اللہ تیموری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’یہ فضائی حملہ طالبان کے عسکری اہداف پر کیا گیا تاہم افسوس کی بات ہے کہ اس حملے میں شہری بھی مارے گئے۔ ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس علاقے میں شہری کیا کر رہے تھے۔‘‘

تاہم مقامی رہائشی اس حملے کے تناظر میں حکومتی بیانات سے اختلافات کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق زیادہ تر متاثرین بچے تھے، جو ایک مقامی مدرسے میں قرآن حفظ کرنے کے بعد منعقد ہونے والی ’دستار بندی‘ کی ایک تقریب میں شریک تھے۔

مقامی رہائشی خالد یوسفی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں نے ایسے کم از کم چالیس بچوں کی تدفین میں شرکت کی ہے، جو اس فضائی کارروائی میں ہلاک ہوئے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ پندرہ بچے ابھی تک لاپتہ بھی ہیں۔

خالد یوسفی نے مزید کہا کہ حکومت اس حملے کو صرف اس لیے جائز قرار دے رہی ہے کیونکہ یہ علاقہ طالبان کے زیر کنٹرول ہے لیکن اس علاقے میں شہری مختلف اجتماعات بھی منعقد کرتے رہتے ہیں۔

صوبائی ترجمان نے البتہ کہا ہے کہ افغان فورسز کی طرف سے کی گئی اس کارروائی کے نتیجے میں سات شہری زخمی جبکہ پچاس زخمی ہوئے ہیں۔

سترہ سالہ افغان جنگ کے نتیجے میں شہری بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جنگجو شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو کبھی یہ غلط فہمی میں حکومتی عسکری کارروائی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

خالد یوسفی کے بقول، ’’طالبان نے ہماری روزمرہ کی زندگی تباہ کر دی ہے۔ ہم اس جنگ میں سب کچھ ہار چکے ہیں لیکن حکومت ہمیں تحفظ دینے کے بجائے ہمیں غلطی سے اسی جنگجو گروہ کا حصہ سمجھ لیتی ہے۔‘‘

دشت ارچی میں ہوا یہ حملہ افغان فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں شہری ہلاکتوں کے تناظر میں ایک خونریز واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق صرف سن دو ہزار سترہ کے دوران ایسی ہی پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں دس ہزار سے زائد افغان شہری ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔

ع ب / ع ا / م س