1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قزاقستان کے شہر جانا اوزن میں ہنگامی حالت نافذ

17 دسمبر 2011

قزاقستان کے صدر نورسلطان نذر بائیف نے کسپیئن شہر جانا اوزن میں ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے۔ اس شہر میں آئل ورکرز اور پولیس کے مابین تصادم کے نتیجے میں گزشتہ دو دنوں کے دوران گیارہ افراد ہلاک چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/13UmZ
تصویر: dapd

قزاقستان کے صدر کی سرکاری ویب سائٹ پر شائع کیے گئے ایک اعلان کے مطابق Zhanaozen میں آئندہ برس پانچ جنوری تک ہنگامی حالت نافذ رہے گی۔ بتایا گیا ہےکہ اس اقدام کا مقصد عوام کی جان و مال کی حفاظت ہے۔ اعلان کے مطابق متاثرہ شہر میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے خصوصی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔

خبر رساں ادارے کے مطابق جانا اوزن میں جمعہ کے دن ہڑتال پر موجود تیل کی صنعت سے وابستہ اہلکاروں اور پولیس کے مابین اس وقت تصادم ہوا، جب پولیس نے مظاہرین کو منشتر کرنے کی کوشش کی۔ اطلاعات کے مطابق اس تصادم کے نتیجے میں 75 افراد زخمی بھی ہو گئے۔ مظاہرین نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے ان پر فائرنگ کی تاہم حکام نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

صدر نذربائیف نے کہا ہے کہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مظاہرین نے شہر کے امن وامان کو تباہ کرنے کی کوشش کی، لوٹ مار کی اور شہریوں کو مارا پیٹا۔ انہوں نے تشدد کے ان واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

ملکی وزیر داخلہ Kalmukhanbet Kasymov نے بتایا ہے کہ متاثرہ شہر میں صورتحال کنٹرول میں کر لی گئی ہے۔ اپنے ایک نشریاتی خطاب میں انہوں نے کہا کہ امن وامان کی صورتحال بگاڑنے والے افراد وہ تھے، جنہیں Kazmunaigaz نامی تیل کی ایک کمپنی نے کچھ ماہ قبل نوکری سے فارغ کر دیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق پولیس نے کم ازکم 70 افراد گرفتار کر لیا ہے۔ جمعہ سے جانا اوزن میں مواصلات کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ موبائل فون اور انٹر نیٹ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے، جس کی وجہ سے ان واقعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

قزاقستان میں اپوزیشن کے ایک نشریاتی چینل K-plus نے ہفتہ کے دن بتایا ہےکہ ملکی سکیورٹی فورسز نے پر امن مظاہرین پرفائرنگ کی، جس کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئیں۔ اس چینل کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد گیارہ سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک عینی شاہد نے اس چینل کو بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد کم ازکم پچاس ہے۔ تاہم حکومت نے ان الزامات کو رد کر دیا ہے کہ پولیس نے پہلے فائرنگ کی۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں