1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قزاقستان میں پرتشدد مظاہرے: ایک سو چونسٹھ ہلاکتیں، وزارت صحت

9 جنوری 2022

وسطی ایشیائی جمہوریہ قزاقستان میں حالیہ پرتشدد عوامی مظاہروں اور بدامنی کے واقعات میں ملکی وزارت صحت کے مطابق ایک سو چونسٹھ افراد ہلاک اور دو ہزار دو سو سے زائد زخمی ہوئے۔ ایک سو تین ہلاکتیں صرف الماتی میں ہوئیں۔

https://p.dw.com/p/45Jsx
Almaty Protest Town Hall
ان مظاہروں کے دوران الماتی میں میئر کے دفتر کی عمارت کو آگ بھی لگا دی گئی تھیتصویر: Anatolij Weisskopf/DW

سابق سوویت یونین کی اس جمہوریہ میں ملکی وزارت صحت کی طرف سے گزشتہ کئی دنوں کے دوران بدامنی کے واقعات میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں سے متعلق جاری کردہ یہ اعداد و شمار سرکاری نشریاتی ادارے خبر۔24 نے نشر کیے۔ یہ تعداد اب تک کے اندازوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

قزاقستان میں غداری کے شبے میں سابق انٹیلیجنس سربراہ گرفتار

یہ واضح نہیں کہ آیا ان 164 ہلاکتوں سے مراد صرف شہری اموات ہیں یا ان میں کئی روزہ بدامنی کے دوران مارے جانے والے سکیورٹی اہلکاروں کو بھی شمار کیا گیا ہے۔ قبل ازیں آج ہی اتوار نو جنوری کے روز حکومتی ذرائع نے ایک علیحدہ بیان میں یہ تصدیق بھی کی تھی کہ اس بدامنی میں مجموعی طور پر 16 پولیس اہلکار اور نیشنل گارڈز مارے گئے۔

صرف الماتی میں ایک سو تین ہلاکتیں

قزاقستان میں نئے سال کے آغاز پر ایندھن کی بہت زیادہ قیمتوں کے خلاف عوامی مظاہرے ملک کے سب سے بڑے شہر الماتی میں شروع ہوئے تھے، جو دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں پھیل گئے تھے۔ اس احتجاج کے دوران مظاہرین نے الماتی میں میئر کے دفتر کی بلڈنگ سمیت کئی سرکاری عمارات پر قبضہ بھی کر لیا تھا اور چند عمارات کو آگ بھی لگا دی گئی تھی۔

قزاقستان: لڑائی جاری، حالات پر کنٹرول کے لیے روسی قیادت میں فوج کی آمد

Kazakhstan protest Almaty
کئی روزہ بدامنی کے دوران پورے ملک میں ایک سو چونسٹھ میں سے ایک سو تین ہلاکتیں صرف الماتی میں ہوئیںتصویر: Interior Ministry of Kazakhstan/REUTERS

قزاقستان بدامنی: کئی سکیورٹی اہلکار اور مظاہرین ہلاک

وزارت صحت کے مطابق 164 ہلاکتوں میں سے سب سے زیادہ الماتی میں ہوئیں، جن کی تعداد 103 بنتی ہے۔ اس کے علاوہ ہلاک شدگان میں تین نابالغ افراد بھی شامل ہیں، جن میں سے ایک بچی کی عمر تو صرف چار سال تھی۔

ڈھائی ہزار غیر ملکی فوجی

قزاقستان میں بدامنی اور حکومت مخالف مظاہروں پر قابو پانے کے لیے ملکی صدر توکائیف نے سکیورٹی فورسز کو مظاہرین کو دیکھتے ہی بغیر کسی انتباہ کے گولی مار دینے کا حکم بھی دے دیا تھا۔

تقریباﹰ اسی وقت صورت حال بہت زیادہ خراب ہو جانے پر روس اور سابق سوویت یونین کی چار دیگر ریاستوں نے اپنے تقریباﹰ ڈھائی ہزار امن دستے قزاقستان بھیج دیے تھے تاکہ حالات پر قابو پانے میں قزاقستان کی حکومت کی مدد کی جا سکے۔ ان امن دستوں میں اکثریت روسی فوجیوں کی ہے۔

قزاقستان کے صدر نذربائیف کئی دہائیوں بعد مستعفی

تقریباﹰ چھ ہزار افراد زیر حراست

ملکی وزارت صحت کے مطابق ان کئی روزہ مظاہروں میں مجموعی طور پر دو ہزار دو سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ وزارت داخلہ کے بیانات کے مطابق ان میں سے تیرہ سو زخمی ملکی سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہیں۔

اسی دوران صدر توکائیف کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ملکی ادارے حالیہ بدامنی میں ملوث ملزمان کی شناخت اور تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں 125 بڑے واقعات کی چھان بین جاری ہے اور اب تک کی تفتیش کے نتیجے میں مجموعی طور پر پانچ ہزار آٹھ سو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

م م / ع ت (اے پی، روئٹرز)