1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’قرونِ وسطیٰ کا شمشیر زنی کا مقابلہ‘ آج کے برلن میں

مقبول ملک2 فروری 2015

برلن میں ابھی حال ہی میں قرونِ وسطیٰ کے ماہر شمشیر زنوں کے مابین ہونے والے مقابلوں کی طرز پر ایک ایسے مقابلے کا اہتمام کیا گیا جس کا نام تھا ’رائز آف دا نائٹس تھری‘ اور جس میں یورپ بھر سے مختلف ٹیموں نے حصہ لیا۔

https://p.dw.com/p/1EUgh
تصویر: picture-alliance/dpa

ان مقابلوں کو Medieval Combat Tournament یا قرون وسطیٰ کا جنگی ٹورنامنٹ کہا جاتا ہے اور اس سال اپنی نوعیت کے ان تیسرے مقابلوں کا نام تھا Rise of the Knights III۔ ہفتہ 31 جنوری کے دن یہ ایک روزہ ٹورنامنٹ جرمن دارالحکومت برلن کے نواح میں بَیرناؤ Bernau کے میونسپل سپورٹس ہال میں منعقد کیا گیا۔ ان مقابلوں کے دوران صدیوں پہلے کے سے جنگی حالات میں اور سامان حرب کے ساتھ جن شمشیر زنوں کا آپس میں مقابلہ ہوا، وہ پانچ پانچ کھلاڑیوں پر مشتمل کئی مختلف ٹیموں کا حصہ تھے۔

نائٹس Knights قرون وسطیٰ کے زمانے کے ایسے بہادر فوجی یا سپہ سالار ہوتے تھے جو تیر زنی اور شمشیر زنی کے ماہر ہوتے تھے اور مختلف جنگی معرکوں میں اپنی بےمثال بہادری کے جوہر دکھانے کے نتیجے میں اپنے اپنے ملکوں کے بادشاہوں سے ’نائٹ‘ کا خطاب پاتے تھے۔

Deutschland Kultur Ritterspiele Mittelalterlich Spectaculum in Bückeburg Ritterkampf
نائٹس Knights قرون وسطیٰ کے زمانے کے ایسے بہادر فوجی یا سپہ سالار ہوتے تھے جو تیر زنی اور شمشیر زنی کے ماہر ہوتے تھےتصویر: picture-alliance/dpa

بَیرناؤ کے میونسپل سپور‌ٹس ہال میں امسالہ ٹورنامنٹ کے دوران بہت سے ’جنگی سورماؤں‘ کے مابین شمشیر زنی کے جو مقابلے ہوئے، ان میں شامل ہر ’نائٹ‘ ایک بڑی تلوار سے مسلح تھا اور اس نے فولادی زرہ پہنی ہوئی تھی۔ پھر شائقین نے دو دو ٹیموں میں بٹے ہوئے دس کھلاڑیوں کے مابین ہونے والے جو متعدد مقابلے دیکھے، ان میں شرکاء نے شمشیر زنی کے بہترین فن کا مظاہرہ کیا اور ہال بیک وقت کئی کئی تلواروں کے حملوں اور ان تلواروں کے کھلاڑیوں کی فولادی ڈھالوں سے ٹکرانے کی آوازوں سے گونجتا رہا۔

ان مقابلوں کے دوران شائقین نے دیکھا کہ کس طرح صدیوں پہلے کے سے جنگی ماحول میں ایک شمشیر زن اپنے مخالف ’نائٹ‘ پر حملہ آور ہوتا تھا، پھر اپنی تلوار سے مسلسل حملے کرتے ہوئے جب وہ اپنے دشمن کو زیر کر لیتا تھا تو زمین پر گرے ہوئے مخالف پر اس کا آخری حملہ اس کے فولادی خود پر کیا جانے والا تلوار کا وہ حتمی وار ہوتا تھا، جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ زمین پر گرے ہوئے ’نائٹ‘ کو شکست ہو گئی ہے۔

قرون وسطیٰ کے ایسے حقیقی جنگی مقابلوں میں ہارنے والے ’بہادر جنگجو‘ سچ مچ مارے جاتے تھے لیکن برلن کے ’جنگی ٹورنامنٹ‘ میں ایک کھیل کے طور پر اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ ہارنے والے یا جیتنے والے ’سورماؤں‘ میں سے کوئی زخمی نہ ہو کیونکہ اس کھیل کا مقصد ’تاریخی پس منظر میں ایک صحت مند جسمانی تفریح‘ ہے نہ کہ سچ مچ کسی کی جان لینا۔

برلن کے اس ایک روزہ ’جنگی ٹورنامنٹ‘ میں کھیل کے قوانین کے مکمل احترام کو یقینی بنانے کے لیے ریفری بھی موجود تھے اور ہر ٹیم نے تین تین ’جنگیں لڑیں‘۔ ہر مقابلے میں جیتنے والی ٹیم کا فیصلہ اس بنیاد پر ہوا کہ آخر میں کسی بھی ٹیم کے پانچ کھلاڑیوں میں سے کتنے فتح یاب رہے۔

ان مقابلوں کی خاص بات یہ بھی ہے کہ ہر ٹیم کے ہر کھلاڑی کو اوسطاﹰ قریب 25 کلو گرام وزنی زرہ بکتر اور فولادی خود پہننا پڑتے ہیں۔ 2013ء میں اس ٹورنامنٹ میں چند ہی ٹیموں نے حصہ لیا تھا۔ اس سال ان مقابلوں میں حصہ لینے والی ٹیموں کی تعداد 30 رہی۔

اس سال یہ ٹورنامنٹ پولینڈ کی ٹیم ’پولینڈ ون‘ نے جیتا، جس کے کھلاڑیوں نے گزشتہ برس کی عالمی چیمپئن ٹیم کو ’تین جنگوں‘ پر مشتمل فائنل میں دو ایک سے ہرایا۔ یہ ٹیم انگلینڈ اور ویلز کی قومی ٹیموں کے کھلاڑیوں پر مشتمل ایک مشترکہ ٹیم تھی جس کا نام Battle Heritage Lions ہے۔ ان مقابلوں کا اہتمام اس کھیل کی نگران بین الاقوامی تنظیم International Medieval Combat Federation (IMCF) کے تعاون سے کیا جاتا ہے۔