1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قرآن جلانے والوں کے خلاف سخت جوابی اقدامات کریں، او آئی سی

1 فروری 2023

مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے بعض یورپی ملکوں میں قرآن نذر آتش کیے جانے کے اشتعال انگیز واقعات کی شدید مذمت کی ہے۔ اس چھپن رکنی تنظیم نے ایسی 'مجرمانہ حرکات‘ کرنے والوں کے خلاف مشترکہ سخت اقدامات کی اپیل بھی کی۔

https://p.dw.com/p/4MwbT
Türkei Gipfeltreffen der Organisation für Islamische Zusammenarbeit in Istanbul
تصویر: Getty Images/AFP/B. Ozkan

اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کی مجلس عاملہ کا ایک غیر معمولی اجلاس منگل کے روز سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں واقع اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹرز میں ہوا۔ اس میں سویڈن، نیدرلینڈز اور ڈنمارک میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے نسخے جلائے جانے اور ان کی بے حرمتی کے حالیہ واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔

اس اجلاس کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں او آئی سی نے اپنے تمام رکن ممالک سے اپیل کی کہ ان حالیہ واقعات کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کریں تاکہ مستقبل میں اس طرح کی اشتعال انگیز کارروائیوں کو روکا جا سکے۔ اس اجلاس میں اسلاموفوبک حملوں کے مرتکب افراد کے خلاف ممکنہ اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

قرآن نذر آتش کرنے کے خلاف کئی اسلامی ممالک میں شدید مظاہرے

او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ نے مغربی ممالک میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں کی ایسی اشتعال انگیز کارروائیوں پر مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ اس طرح کے مجرمانہ اقدامات مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور ان کے مذہب، اقدار اور مذہبی علامات کی توہین کے بنیادی ارادے سے کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے متعلقہ حکومتوں کو سخت جوابی اقدامات کرنا چاہییں، بالخصوص اس لیے بھی کہ انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند اس طرح کی اشتعال انگیزی ایسے ممالک میں بار بار کر رہے ہیں۔

ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں کی توہین

او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے کہاکہ قرآن کی بے حرمتی اور پیغمبراسلام کی توہین پر مبنی ایسی کارروائیاں جان بوجھ کی جاتی ہیں اور ایسے اقدامات کو اسلاموفوبیا کے کسی عام واقعے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کا عمل دنیا کی ایک ارب60 کروڑ کی مسلم آبادی کی براہ راست اجتماعی توہین ہے۔

سویڈن میں تیار کردہ مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی مہم

حسین ابراہیم طہٰ نے تمام متعلقہ فریقوں پرزور دیا کہ وہ ایسی اشتعال انگیز حرکتوں کے ذمے دار عناصر کے خلاف سخت کارروائی کریں تاکہ مستقبل میں اس طرح کی اشتعال انگیزی کا اعادہ نہ ہو سکے۔

’یہ دائیں بازو کے سیاست دانوں کا ایجنڈا ہے‘

او آئی سی میں ترکی کے مستقل نمائندے محمد متین ایکر نے کہا کہ اسٹاک ہوم، دی ہیگ اور کوپن ہیگن میں قرآن جلائے جانے کے حالیہ 'شرمناک‘ واقعات کی انقرہ حکومت شدید مذمت کرتی ہے۔

انہوں نے کہا، ''ترکی کی جانب سے درخواست کے باوجود بدقسمتی سے سویڈش حکام 21جنوری کو قران پر حملہ روکنے کے لیے ضروری احتیاطی اقدامات کرنے میں ناکام رہے، جس سے حوصلہ پاکر بعد میں نیدرلینڈز اور ڈنمارک میں بھی اسی طرح کی کارروائیاں کی گئیں۔‘‘

سویڈن ’قرآن جلانے کے لیے‘ مظاہرے کی اجازت منسوخ کرے، ترکی

ترک سفیر کا کہنا تھا، ''دنیا کے کئی حصوں بالخصوص یورپ میں اسلام مخالف نفرت خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ دائیں بازو کے سیاست داں اپنے 'تنگ نظر ایجنڈے‘ کو نافذ کرنے کے لیے اسلام مخالف اور مردم بیزاری کی مظہر سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

نیٹو کی رکنیت: سویڈن ترک حمایت کی توقع نہ رکھے، ایردوآن

دائیں بازو کے شدت پسند ڈینش سویڈش رہنما راسموس پالوڈن نے 21 جنوری کو اسٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے باہر قرآن کو نذر آتش کیا تھا۔ اس کے بعد اسلام مخالف گروپ پیگیڈا کے رہنما اور دائیں بازو کے ڈچ سیاست دان ایڈون ویگنس ویلڈ نے بھی نیدرلینڈز اور ڈنمارک میں قرآن کو نذر آتش کیا تھا۔

قرآن کو جلانے کے خلاف دنیا کے مختلف ملکوں میں مظاہرے ہوئے
قرآن کو جلانے کے خلاف دنیا کے مختلف ملکوں میں مظاہرے ہوئےتصویر: AFP

’قرآن کی بے حرمتی کو اظہار بیان کی آزادی کہنا حماقت‘

دریں اثنا ہنگری کے وزیر خارجہ پیٹر سزیجاترو نے کہا ہے کہ کسی بھی دوسرے مذہب کی مقدس کتاب جلانا یا اس کی بے حرمتی کرنا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہب خواہ کوئی بھی ہو، '' ہم اس کی مقدس کتاب یا دیگر مقدس علامات کو جلانے یا ان کی بے حرمتی کرنے کی قطعی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘

ہنگری کے وزیر خارجہ کے مطابق، ''میں ایک مسیحی اور باعقیدہ کیتھولک مسیحی کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ کسی بھی دوسرے عقیدے کی مقدس کتاب کو جلانا یا اس کے بے حرمتی کرنا کسی بھی شکل میں قابل قبول نہیں ہو گا۔ میں نہایت معذرت سے کہتا ہوں کہ کسی اور عقیدے کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کو اظہارِ بیان کی آزادی کہنا حماقت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ اب اگر کوئی ملک نیٹو کی رکنیت چاہتا ہو اور ترکی کی بھی حمایت حاصل کرنا چاہتا ہو، تو اسے زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔‘‘

ج ا / م م (نیوز ایجنسیاں)