1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیفا نے سر ڈھک کر میچ کھیلنے کی اجازت دے دی

عاصم سليم2 مارچ 2014

فٹ بال کی عالمی گوورنگ باڈی فيفا نے مرد و خواتين کھلاڑيوں کو ميچوں کے دوران مذہبی وجوہات کی بنا پر سر ڈھانپنے کی اجازت دے دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BI78
تصویر: reuters

سوئٹزرلينڈ کے شہر زيورخ ميں فيفا کے قانون سازوں پر مبنی ’انٹرنيشنل فٹ بال ايسوسی ايشن بورڈ‘ کے ہفتے کے روز منعقدہ ايک اجلاس کے بعد سيکرٹری جنرل ژروم ولاکے نے اِس بارے ميں اعلان کيا۔ اِس موقع پر ان کا کہنا تھا، ’’يہ فيصلہ کر ليا گيا ہے کہ خواتين کھلاڑی کھيلنے کے ليے اپنے سروں کو ڈھانپ سکتی ہيں۔‘‘ اِس فيصلے کے تحت وہ مسلمان خواتين کھلاڑی، جو اپنی روز مرہ کی زندگی ميں بھی حجاب کيا کرتی ہيں، اب ميچوں کے دوران بھی اِسی طرز سے سر ڈھانپ کر کھیل سکيں گی۔

سيکرٹری جنرل ژروم ولاکے
سيکرٹری جنرل ژروم ولاکےتصویر: picture alliance / AP Photo

اِس موقع پر ژروم ولاکے نے مزيد کہا کہ کينيڈا کی سکھ برداری کی درخواست پر مرد کھلاڑيوں کو بھی اب يہ اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ميچوں کے دوران پگ پہن سکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا، ’’يہ فيصلہ کيا گيا ہے کہ مرد کھلاڑی بھی اپنے سر ڈھانپ سکتے ہيں۔‘‘ تاہم ولاکے کا مزيد کہنا تھا کہ مرد کھلاڑی جس طرح اپنی روز مرہ کی زندگيوں ميں سر ڈھانپتے ہيں، ميچوں کے دوران اُنہيں اِس سے ذرا مختلف طريقے سے يہ کام کرنا ہوگا۔ بورڈ کے سيکرٹری جنرل کے بقول مرد کھلاڑی اپنے سروں کو جس کپڑے سے ڈھک سکيں گے، وہ بالکل سادہ اور اُسی رنگ کا ہونا چاہيے، جِس رنگ کی اُن کی قميضں ہو۔

واضح رہے کہ ميچوں کے دوران حجاب کرنے پر 2012ء ميں فيفا کی جانب سے پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اُس وقت اِس فيصلے کی وجہ بيان کرتے ہوئے فيفا نے کہا تھا کہ اِس عمل سے سر يا گردن کی چوٹ لگنے کے امکانات بڑھ جاتے ہيں۔ بعد ازاں ’ايشين فٹ بال کنفيڈريشن‘ کی درخواست پر فيفا نے يہ اجازت دے دی کہ ميچوں کے دوران سر ڈھکنے کو آزمائشی بنيادوں پر دو برس کے ليے جاری رکھا جائے۔ يہ آزمائشی مرحلہ کامياب رہا اور اِسی تناظر ميں اب مرد و خواتين کھلاڑيوں کو کھيل کے دوران بھی سر ڈھکنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

’انٹرنيشنل فٹ بال ايسوسی ايشن بورڈ‘ کے سيکرٹری جنرل ژروم ولاکے کے بقول اِس فيصلے کا اطلاق عالمی سطح پر ہوگا۔ اُنہوں نے مزيد کہا کہ يہ فيصلہ مسلمان ممالک کی جانب سے جمع کرائی جانے والی درخواستوں کے نتيجے ميں ليا گيا ہے، جِن کا يہ موقف ہے کہ اِس اقدام سے مسلمان ممالک ميں عورتوں کے درميان فٹ بال کے کھيل کو فروغ حاصل ہوگا۔