1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسٹریلیا: ‎فیس بک خبریں شیئر کرنے پر پابندی لگا سکتا ہے

1 ستمبر 2020

‎آسٹریلیائی حکومت نے ایک قانون وضع کرنے کی تجویز پیش کی ہے جس میں فیس بک کو مواد استعمال کرنےکے ليے مقامی میڈیا اداروں کو پیسےادا کرنے پڑ سکتے ہیں۔ اس لیے فیس بک نے نیوز شیئرکرنے پر پابندی لگانے کی دھمکی دی ہے۔

https://p.dw.com/p/3hpve
Facebook stellt Aufsichtsgremium für strittige Inhalte vor | Symbolbild
تصویر: picture-alliance/empics/N. Carson

آسٹریلیا کی حکومت کے اس فیصلے کے بعد کہ خبروں سے متعلق مواد استعمال کرنے کے لیے فیس بک کو مقامی میڈیا اداروں کو اس کا پیسہ ادا کرنا چاہیے، فیس بک نے آسٹریلیا میں صارفین پر اپنے پلیٹ فارمز پر خبروں سے متعلق مواد اور نیوز اسٹوری شیئرکرنے پر پابندی عائد کرنے کے بارے میں غیر مثالی اقدامات کرنے کی دھمکی دی ہے۔ آسٹریلیائی حکومت نے اس سلسلے میں ایک قانون وضع کرنے بھی تجویز پیش کی ہے جس کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے۔

نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے لیے فیس بک کے مینیجنگ ڈائریکٹر ول اسٹون نے اس بارے میں اپنے ایک بلاگ میں لکھا، ''فرض کیجیئے یہ مسودہ قانون بن جاتا ہے، تو پھر ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی آسٹریلیا میں خبریں شائع کرنے والے اور صارفین پر مقامی اور بین الاقوامی خبروں کو فیس بک اور انسٹاگرام پر شیئر کرنے پرپابندی عائد کرنی پڑے گی۔''

  ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مجوزہ قانون کے تحت دو ہی متبادل ہیں جس میں سے کمپنیوں کو ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ''یا تو پوری طرح سے خبروں کے مواد کو ہٹا دیا جائے یا پھر کسی ایسے نظام کو تسلیم کیا جائے جس کے تحت پبلشر اپنے نیوز کے مواد کے موافق ہم سے معاوضہ لینے کی مجاز ہوں اور جس میں وہ کسی واضح حدود کے بغیر جو قیمت چاہیں وہ ہم سے حاصل کر سکیں۔ اس طرح تو کوئی بھی کاروبار نہیں چل سکتا۔''

آن لائن صارفین اب کنٹرول کر سکتے ہیں اپنے ڈیٹا کو

   آسٹریلیا کی حکومت نے فیس بک اور گوگل جیسی بڑی ڈیجیٹل کمپنیوں کے دائرہ اختیار اور ان کے اختیارات کو محدود کرنے کے سلسلے میں بعض سخت قوانین وضع کرنے منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس کے تحت ایسی کمپنیوں کو اپنی سائٹ پر مواد استعمال کرنے کے لیے مقامی میڈیا اداروں کو رقم دینی پڑ سکتی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کامقصد ان پلیٹ فارمز میں مزید شفافیت لانی ہے جو ایسے مواد کی رینکنگ کے لیے الگورتھم سسٹم کا استعمال کرتے ہیں۔

آسٹریلیا کے اس مجوزہ قانون پرگوگل نے بھی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قانون سے جہاں فرد کی نجی پرائیویسی خطرے میں پڑ سکتی ہے وہیں آسٹریلیائی باشندے جس طرح کمپنی کی خدمات مفت استعمال کرتے ہیں اس سے وہ بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

لیکن مقامی میڈیا اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں نے اس بارے میں حکومتی اقدامات کی حمایت کی ہے۔ آسٹریلیا میں 'سیو جرنلزم پروجیکٹ'، نامی ادارہ صحافت پر فیس بک اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اثرات کا جائزہ لینے کا کام کرتا ہے۔ اس ادارے کے بانیوں میں سے ایک جان اسٹینٹن کا کہنا ہے، ''مارک زکربرگ اس بات سے خوش ہیں کہ فیس بک غلط اطلاعات اور جعلی خبریں پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے تاہم بظاہر ان پر اس بات کا کوئی اثر نہیں پڑتا کہ فیس بک اصل اور اہم خبروں کو یکسر ترک کر دیتا ہے۔''

ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے حکام کو ایسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر لگام لگانے کی ضرورت ہے جو آن لائن مارکیٹ پر پوری طرح سے قابض ہیں۔ 

ص ز / ج ا (ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں