1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فٹ بال: کوچ تبدیل کرنا کیا ہر مرتبہ ٹیم کے مفاد میں ہوتا ہے؟

تھوماس کلائن / عدنان اسحاق29 اپریل 2014

فٹ بال کی دنیا میں اکثر کلب اپنی شکست کی ذمہ داری کوچ پر ڈال کر اُسے تبدیل کر دیتے ہیں۔ اکثر کلب ایسا کیوں کرتے ہیں اور آیا کوچ کی تبدیلی سے واقعی کامیابی مل سکتی ہے؟۔

https://p.dw.com/p/1Bpd7
تصویر: AP

جرمن فٹ بال لیگ بنڈس لیگا کے رواں سیزن کے دوران اب تک آٹھ کوچ تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو یہ کہتے ہوئے فارغ کیا گیا کہ ان کی موجودگی سے ٹیموں کی کارکردگی بہتر نہیں ہو پا رہی تھی۔ ماہر نفسیات ژَینز کلائنرٹ سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ آخر بہت سارے کلب کوچ ہی کو کیوں شکست کا ذمہ دار سمجھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے اس بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس تبدیلی سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’جواب بہت واضح ہے کیونکہ اکثر کلب اور ان کے انتظامی ارکان ذرائع ابلاغ اور مداحوں کے دباؤ میں آ کر کوچز کو تبدیل کرتے ہیں۔ اس طرح کے اکثر فیصلے ٹیموں کے مفاد اور ان کی کارکردگی کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں کیے جاتے بلکہ یہ انتہائی پیچدہ معاملات ہوتے ہیں۔ کسی بھی بحرانی صورتحال میں کلب کی انتظامیہ کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ خود کو فعال ثابت کرے‘‘۔

Fußball: Nürnberg gewinnt gegen Bayern München
تصویر: AP

ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر ٹیمیں سیزن کے اختتام پر اپنے کوچ تبدیل کرتی ہیں۔ یہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب یا تو طے کردہ ہدف حاصل کیا جا چکا ہوتا ہے یا پھر شکست مقدر بن چکی ہوتی ہے۔ ایسی صورتحال میں کوچ بدلنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ ژَینز کلائنرٹ کے مطابق اس کا تعلق اس امید سے ہوتا ہے کہ ٹیم اگلے سیزن میں اور بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ ٹرینر یا کوچ کو مختلف وجوہات کی بناء پر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ٹیم پر اس کا منفی اثر یہ پڑ سکتا ہے کہ اس دوران کھلاڑیوں نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہو، وہ زائل ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ایسی تبدیلی تبھی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے، جب کھلاڑیوں کا کوچ پر سے اعتماد اٹھ چکا ہو اور انہیں یہ احساس ہو رہا ہو کہ اس کوچ کے ساتھ وہ اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکیں گے تاہم یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہوتی ہے، جس کا سامنا بہت کم ہی کرنا پڑتا ہے‘‘۔

ماہر نفسیات ژَینز کلائنرٹ کے بقول کبھی کبھار ایسے فیصلے بغیر سوچے سمجھے بھی کیے جاتے ہیں۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب انتظامیہ نے کھلاڑیوں کے ساتھ اس بارے میں بہت زیادہ بات نہ کی ہو۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ کوچ کو اسی وقت تبدیل کیا جاتا ہے جب صورتحال اس کی اجازت دیتی ہو۔ مثال کے طور پر جب ٹیم کو تنزلی کا خوف ہو یا مسلسل شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو۔ ایسی صورت میں کھلاڑیوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور منفی سوچ ان پر حاوی ہونے لگتی ہے۔ ایسے موقع پر تبدیلی اکثر ٹیموں کے لیے بہتر ثابت ہوتی ہے۔