1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہفلپائن

فلپائن، فرڈیننڈ مارکوس جونئیر نے صدارتی عہدہ سنبھال لیا

30 جون 2022

فلپائن کے سابق آمر کے بیٹے فرڈیننڈ مارکوس جونیئر نے باقاعدہ طور پر صدارتی عہدہ سنبھال لیا ہے۔ روڈریگو ڈوٹیرٹے کی چھ سالہ ’آمرانہ حکومت‘ کے بعد مارکوس جونیئر اور بھی زیادہ سخت حکمران ثابت ہو سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4DT1F
Philippinen | Amtseinführung Ferdinand Marcos Jr. als Präsident
تصویر: Eloisa Lopez/REUTERS

فرڈیننڈ مارکوس جونیئر نے جمعرات کو فلپائن کے 17ویں صدر کے طور پر حلف اٹھا لیا ہے۔ 36 سال قبل ان کے والد کو عوامی بغاوت  کے نتیجے میں اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔ طویل عرصے تک فلپائن پر آہنی ہاتھوں سے حکمرانی کرنے والے فرڈیننڈ مارکوس کے بیٹے نے نو مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں واضح برتری حاصل کی تھی۔

 مارکوس جونیئر نے حلف برداری کی تقریب میں عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، ''آپ مایوس نہیں ہوں گے۔‘‘ انہوں نے اپنی فتح کو 'فلپائن کی تاریخ کا سب سے بڑا انتخابی مینڈیٹ‘ قرار دیا۔ اس تقریب میں ان کے خاندان کے قریبی لوگوں نے بھی شرکت کی۔ تقریب میں ان کی 92 سالہ والدہ امیلڈا بھی موجود تھیں، جو چار مرتبہ کانگریس کی رکن رہ چکی ہیں۔

64 سالہ مارکوس جونیئر کی تقریب حلف برداری کا انعقاد نیشنل میوزیم کے سامنے کیا گیا، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت۔ فلپائن کے اس 17ویں صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے عام لوگ گزشتہ رات ہی جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ان کی نائب صدر سارہ ڈوٹیرٹے ہوں گی، جو سابق صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے کی بیٹی ہیں۔

مبصرین کو خدشہ ہے کہ روڈریگو ڈوٹیرٹے کی چھ سالہ آمرانہ حکومت کے بعد مارکوس جونیئر اور بھی زیادہ سخت حکمران ثابت ہو سکتے ہیں۔ مارکوس جونیئر نے انتخابی مہم کے دوران ماضی میں اپنے خاندان کی بربریت اور بدعنوانی کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

انسانی حقوق کی پامالیوں کی داستان

مارکوس جونئیر کی فتح ان کے خاندان کے لیے سیاست میں واپسی کا ایک شاندار موقع ہے۔ لیکن ان کے خاندان کو اپنے سخت حکومتی فیصلوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ ان کے والد مارکوس سینئر نے 1965ء سے 1986ء تک فلپائن پر حکمرانی کی۔ ان دوران 60 ہزار سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا گیا، 30 ہزار سے زیادہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ایک اندازے کے مطابق تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ 1986ء  میں ایک پرامن انقلاب میں ان کی آمرانہ حکومت کا اختتام ہوا۔

کیا تاریخ خود کو دہرائے گی؟

ناقدین کا ماننا ہے کہ اگرچہ مارکوس کے خاندان کا سیاسی باب سخت گیر فیصلوں سے بھرا پڑا ہے لیکن اس بات کے کم ہی امکانات ہیں کہ وہ اپنے والد کی آمرانہ سیاسی سوچ کی نقل کرنے کا اراداہ رکھتے ہیں۔

مارکوس جونئیر نے اپنی تقریر میں اپنے والد کے ترقیاتی منصوبوں کی تعریف کی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ماضی کے فیصلوں پر غم و غصے کا اب کوئی جواز نہیں بنتا، ''آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی اور جو ذمے داری میرے کندھوں پر ڈالی گئی ہے، اسے میں سنجیدگی سے نبھاؤں گا۔‘‘

فلپائن میں اسلام پسند جنگجوؤں نے کینیڈین شہری کا سر قلم کر دیا

ر ب / ا ا ( روئٹرز، ڈی پی اے)