1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسفہ قربانی کیا ہے؟

15 جون 2024

ہمارے شہری و دیہی علاقوں میں قربانی کے گوشت کو فریز کرنے کا رواج عام ہے۔ مگر ہم ہیں کہ قربانی کر کے خود جانوروں کے پایوں اور چانپوں پر قربان ہو جاتے ہیں۔ تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے ان قبیح عادات کو قربانی کا حصہ بنا لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4h2GS
DW Urdu, Tabindah Khalid, Blogger
تصویر: Privat

ذوقِ حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمانِ خلیل

ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن

مرورِ زمانہ سے مشاہدے میں آرہا ہے کہ ہم قربانی کے اصل مقصد سے دور ہٹتے جا رہے ہیں۔ حقیقی پیغام سے صرفِ نظر کر لیا ہے اور رسم کی ادائیگی کو اوجِ کمال تک پہنچا دیا ہے۔

ایک وقت وہ تھا کہ لوگ سال بھر قربانی کے جانور کو اخلاص کے ساتھ گھر میں پالا کرتے تھے تاکہ اس جانور سے انسیت بڑھے اور پھر عید الاضحی پر گھر میں ہی قربان کیا جائے۔ مگر اب پالنے کا رواج شاذونادر ہی دکھائی دیتا ہے۔

لوگ ریڈی میڈ جانوروں کو پالنے پر فوقیت دیتے ہیں۔ اگر پال بھی لیں تو بھاری بھرکم جانوروں کو جب تین چار منزلہ عمارت سے نیچے اتارنے کا اعادہ ہوتا ہے تو کرین کے ساتھ ساتھ میڈیا کوریج کو بھی کال دی جاتی ہے۔ یوں عوام کا جم غفیر اس ریاکاری کو دیکھنے کے لیے جمع ہوتا ہے۔

دراصل زوال یافتہ قوم کی نفسیات  ہمارے ذہنوں میں سرائیت کر چکی ہے۔ ہم پوری نمائش کے ساتھ فربہ جانور خریدتے ہیں۔ جانور خریدنے کے بعد سوشل میڈیا پر دکھاوے اور واہ واہ وصول کرنے کی غرض سے سٹیٹس اَپ لوڈ کرتے ہیں کہ ہمارا جانور دیسی گھی، مربے کھاتا ہے۔ جو کوئی جانور کا ریٹ دریافت کرتا ہے تو اسے اپنی تشہیر کی خاطر ڈبل ریٹ بتایا جاتا ہے۔ کیا یہی سنتِ ابراہیم علیہ السلام کی اصل روح ہے؟۔

دوسری جانب ہماری نام نہاد سوسائٹی کا کمزور اور سفید پوش طبقہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو گیا ہے کیونکہ سال بھر انتظار کے بعد ہم اپنی دولت کی طاقت کا بھرپور مظاہرہ انہی متبرک ایام میں تو کرتے ہیں۔

نتیجتاً قلیل تنخواہ اور دیہاڑی دار مزدوروں کے بچے جب امراء کے مال و مویشی دیکھتے ہوئے اس کا موازنہ اپنی غربت کے ساتھ کرتے ہیں نتیجتاً اس سے طبقاتی کشمکش، گھبراہٹ اور بے چینی میں گوناگوں اضافہ ہوتا ہے۔

قربانی سے قبل ہم اس سچائی کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ رب کی خوشنودی کا راستہ اس کی مخلوق کی ادائیگی سے ہوکر جاتا ہے۔ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ ہمارے شہری و دیہی علاقوں میں قربانی کے گوشت کو فریز کرنے کا رواج ہو گیا ہے۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جانے چاہییں مگر ہم ہیں کہ قربانی کر کے خود جانوروں کے پایوں، چانپوں، کلیجی پر قربان ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ قربانی کے گوشت کو صرف اپنوں کو ہی نوازنے پر غور کیا جاتا ہے۔

مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ پھر اس میں سے بھی کانٹ چھانٹ کر کے بمشکل 6 سے 7 گھروں کو گوشت تقسیم کر کے قربانی کے عظیم فریضے سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ یوں فریزر بڑے گوشت اور چھوٹے گوشت کے شاپروں سے معمور ہو جاتا ہے جبکہ گوشت اصل حقداروں یعنی مسکین، لاچار، سفید پوش افراد تک پہنچتا ہی نہیں بلکہ چند گروہ متحرک ہوتے ہیں جو جگہ جگہ سے گوشت اکٹھا کر کے مختلف ریستورانوں میں بیچ دیتے ہیں۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان قبیح عادات کو قربانی کا حصہ بنا لیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ رسمی رکھ رکھاؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غرباء کی غم گساری کرتے ہوئے انہیں بہترین کھانا کھلائیں اس سے مسرتوں میں 100فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ عیدِ قربان پہ ہمیں اپنی جھوٹی اَنا کو قربان کرنا ہوگا جو میں اور صرف میں کا راگ الاپتی ہے۔ درحقیقت قربانی کا مقصد اپنی اَنا کو قربان کر کے دوسروں کے لیے احساس اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔

 نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍