1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطین یکم اپریل سے عالمی فوجداری عدالت کا رکن بن جائے گا

امتیاز احمد7 جنوری 2015

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ فلسطین یکم اپریل سے عالمی فوجداری عدالت کی رکنیت حاصل ہو جائے گی۔ اس کے بعد فلسطین اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات کی پیروی کر سکے گا۔

https://p.dw.com/p/1EGDN
Palästinensische Flagge am UNESCO-Hauptquartier
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Langsdon

یورپی ملک ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں واقع جنگی جرائم کی اس عالمی عدالت کا رکن بننے کے لیے فلسطین کی طرف سے باضابطہ طور پر دستاویزات گزشتہ جمعے کے روز جمع کروائی گئی تھیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق سکریٹری جنرل بان کی مون کاغذی کارروائی کے لیے جلد ہی اس درخواست کا جائزہ لیں گے۔

اقوام متحدہ کی ٹریٹی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے بیان میں لکھا گیا ہے، ‘‘سکریٹری جنرل نے دستاویزات منظور کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عدالت کے طریقہ کار کے مطابق یکم اپریل دو ہزار پندرہ کو فلسطینی ریاست کو یہ درجہ دے دیا جائے گا۔‘‘

فلسطین صدر محمود عباس کی طرف سے دی ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی رکنیت حاصل کرنے کا اقدام ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا تھا، جب اس سے ایک روز پہلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک فلسطینی قرارداد کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ اس قرارداد میں اسرائیل سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا قبضہ ختم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی رکنینت حاصل کرنا فلسطین کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد اسرائیل پر دباؤ بڑھانا ہے تاکہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو خالی کرے۔ فلسطین کی طرف سے جنگی جرائم کی عالمی عدالت کی رکنیت حاصل کرنے کا اقدام اسرائیلی عہدیداروں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات قائم کرنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ فلسطین کا بھی یہی کہنا ہے کہ عالمی فوجداری عدالت کی رکنیت حاصل کرنے کا مقصد مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی کارروائیوں کے خلاف انصاف حاصل کرنا ہے۔

فلسطین کے اس اقدام کے رد عمل میں اسرائیل نے فلسطین کو 100 ملین ڈالر کی منقتلی روک دی ہے۔ گزشتہ اتوار کے روز اسرائیل کی جانب سے مزید سخت اقدامات اٹھانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ دوسری جانب امریکا نے بھی اس کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اس اقدام سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوں گی۔ اوباما انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ فلسطین کو دیے جانے والے سالانہ 440 ملین کے امدادی پیکیج کا ازسر نو جائزہ لے رہے ہیں۔

سن 2009ء میں فلسطین نے آئی سی سی میں ایک درخواست جمع کرائی تھی کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ میں کیے جانے والے ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کی جائیں تاہم عالمی فوجداری عدالت نے اس پر یہ کہتے ہوئے عمل درآمد نہیں کیا تھا کہ فلسطینی کوئی ریاستی پارٹی نہیں ہیں۔ بعدازاں فلسطین کو اقوام متحدہ میں ایک مبصر ریاست کا درجہ دے دیا گیا تھا، جس وجہ سے فلسطین کے لیے آئی سی سی سمیت دیگر بین الاقوامی تنظیموں میں شمولیت کے رستے کھل گئے تھے۔