1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
10 مارچ 2022

ابا کی بڑھتی عمر اور میری مصروفیات نے ہمیں ایک دوسرے سے بہت دور کر دیا تھا۔ مجھے یاد ہے جب بھی سسرال سے فون کرتی ابا یہی کہتے میری آنکھیں ترس گئی ہیں تمھیں دیکھنے کو، جلدی آجایا کرو۔ لیکن کیا کرتی؟ بشریٰ پاشا کا بلاگ

https://p.dw.com/p/48HA9
Pakistan Karachi |  Bloggerin DW Urdu Bushra Pasha
بشری پاشا (بلاگر)تصویر: privat

انسانی دماغ بھی قدرت کی ایک عجیب و غریب تخلیق ہے۔ اس میں ہر وقت ایک ہل چل سی مچی رہتی ہے۔ سوچوں کا ایک جمِ غفیر ہر وقت جمع رہتا ہے۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ جن  سوچوں اور یادوں سے آپ اپنا پیچھا چھڑانا چاہ رہے ہوتے ہیں وہ بڑی ہی ڈھٹائی سے آپ کے دماغ میں ڈیرا ڈالے براجمان ہوتی ہیں اور آپ کو وقتاً فوقتاً  اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہیں۔ آپ لاکھ چاہ کر بھی ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے کیونکہ یہ تمام یادیں آپ پر بیتے واقعات سے متعلق ہوتی ہیں اور ان کو مٹانا  گویا اپنے آپ کو مٹا دینے کے مترادف ہے۔

آج بہت دن بعد جامعہ کے کتب  خانے جانے کا اتفاق ہوا۔ زمانہ طالبِ علمی میں تو یہیں میرا ڈیرا رہتا تھا لیکن اب نہ جانے کیوں یہاں آنا بڑا دقت طلب کام بن گیا ہے۔ شاید اب زندگی میں اتنی فراغت اور شوق پالنے کا وقت معاشی اور گھریلو ذمہ داریوں نے لے لیا ہے۔ میرے لیے کتب خانے میں بیٹھنے کا احساس کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہاں آ کر ایسا لگتا ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد کسی مجرم کو کھلی ہوا میں سانس لینا نصیب  ہوا ہے۔کتب خانے میں چھائی ہوئی خوبصورت سی خاموشی اور کتابوں کی خوشبو کا بھی اپنا ہی ایک منفرد مزہ ہے،  جسے محظوظ ہونے کے نشے کو شاید لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ ابھی میں کچھ تحقیقی مقالے اٹھا کر پڑھنے بیٹھی ہی تھی کہ میری نظر میز پر موجود ایک فوٹو کاپی پر پڑ گئی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میرا ہاتھ اس کی جانب بڑھا۔ یہ الزائمر کے موضوع پر ایک تحریر تھی۔

دفعتاً دماغ میں ایک بار پھر سے یادوں کی یلغار ہونے لگی۔ اس مرض سے میرا بڑا دردناک اور گہرا تعلق جڑا ہے۔ آپ نے کبھی کسی اپنے کو جیتے جی مرتے دیکھا ہے؟ میں نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ابا مجھے بھی بھول جائیں گے۔ میرے ذہن میں آج بھی وہ دن بری طرح نقش ہیں۔ ابا نے مجھے بڑی محنت سے پالا تھا۔ اپنی تمام اولاد میں شاید وہ سب سے زیادہ مجھ سے ہی قریب تھے۔ ہم باپ بیٹی ہر دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ میں نے ابا کا سپنا جیا تھا۔ ابا بہت ذہین اور پڑھنے لکھنے کے بڑے دلدادہ تھے لیکن قسمت شاید ان پر اتنی مہربان نہیں تھی۔  چھوٹی عمر سے معاشی ذمہ داریوں نے ان کو وقت سے پہلے بہت بڑا کر دیا تھا اور پھر یوں ہوا کہ ان کے پاس اپنے شوق پورے کرنے کے لئے نہ عمر بچی اور  نہ ہی پیسہ۔ اس محرومی کا احساس شاید ان کو زندگی بھر ہی رہا۔  ابا ہمیشہ ہماری اچھی تعلیم کے لیے کوشاں رہے اور ساتھ ہی ہمیشہ ہمیں کتب خرید کر دیتے۔ ہم روکھی سوکھی کھا لیتے تھے، پرانے کپڑے پہن لیتے تھے لیکن ہمارے گھر کے کتب خانے میں ہمارے مطلب کی ہر کتاب موجود ہوتی تھی۔ ابا کو ادب سے بڑا گہرا  شغف تھا اور مجھے ابا  کی کتابوں سے۔ جب پانچویں جماعت میں قدم رکھا تو میری استانی نے ابا سے میری پہلی شکایت یہ لگائی کہ  آپ کی بیٹی سائنس کی کلاس میں کتاب کے بیچ میں چارلس ڈکنس کا ناول چھپا کر پڑھ رہی تھی۔ ان کو شاید علم نہ تھا کہ ابا کی یہ بیٹی  ابا کے ہاتھ کا تکیہ بنا کر اس پر  لیٹ کر قصہ چہار درویش، داستانِ الف لیلہ، مراۃ العروس اور نہ جانے کیا کیا پڑھ چکی تھی۔

کا ناول پڑھنے کا شوق اب میرا جنون بن گیا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ میں  نے بھی ادب میں ڈگری حاصل کر لی اور جامعہ میں لیکچرار لگ گئی۔ اس دن ابا کی خوشی ساتویں آسمان پر تھی  کہ بیٹی آج وہ کر رہی ہے جو ان کا خواب تھا۔ نصاب میں موجود تمام کتب وہ بغور پڑھتے۔ کبھی کبھار تو جہاں میری سوچ دم توڑنے لگتی وہاں ابا اپنی دانس سے میرے مسئلے نمٹاتے۔

وقت واقعی بڑا بے رحم ہے۔ ابا کی بڑھتی عمر اور میری مصروفیات نے ہمیں ایک دوسرے سے بہت دور کر دیا تھا۔ مجھے یاد ہے جب بھی سسرال سے فون کرتی ابا یہی کہتے میری آنکھیں ترس گئی ہیں تمھیں دیکھنے کو، جلدی آجایا کرو۔ لیکن کیا کرتی؟چاہتے ہوئے بھی جلدی جلدی ملنے کی کوئی سبیل نہ نکلتی۔ مہینے بیت جاتے ابا سے ملے ہوئے۔ اب جب بھی اس وقت کو یاد کرتی ہوں میرے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے۔

ابا الزائمر کے مرض کا شکار ہو گئے اور ان کی ذہنی حالت وقت کے ساتھ ساتھ بہت کمزور ہوتی گئی۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھولنے لگ گئے۔ ایک دن جب میں ان سے ملنے گئی تو ہوا میں گھورتے ہوئےکہنے لگے، ''یہ خیمہ دیکھ رہی ہو؟ یہ بندر میرے کمرے کی بیچ میں لگا کر چلے گئے ہیں۔ دیکھو، یہ لال بندر کس قدر ڈھٹائی سے مجھے گھور رہا ہے۔ ٹھہرو میں ابھی اسے بتاتا ہوں۔‘‘ ابا یہ کہہ کر لڑکھڑاتے ہوئے اٹھے اور اوندھے منہ گر گئے۔  میں آج بھی اس دن کا سوچ کر کانپ جاتی ہوں۔ اسی  دن ڈاکٹر نے اس بات کا انکشاف کیا کہ ابا الزائمر کا شکار ہیں۔ اس دن کے بعد ابا کی حالت شاید پھر کبھی نہیں سنبھل سکی۔ وہ سب کچھ بھول گئے۔ مجھے بھی اور شاید خود کو بھی۔ وہ ایک اپریل کا جمعہ تھا جب ابا  کا بلاوا  آگیا۔ انہوں نے خاموشی سے داعیِ عجل کو لبیک کہا اور یوں میرے سر سے باپ کا شفیق سایہ اٹھ گیا۔ ابا کے ساتھ ہی پڑھنے لکھنے کے جوش بھی جیسے تھم سا گیا۔ اب شاید کسی کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ میں کون سا ناول پڑھ رہی ہوں یا میں کمرہ جماعت میں کیا پڑھا رہی ہوں۔ ابا نے میرے اندر اپنے شوق تو بو دیے تھے لیکن ان کے بغیر شاید ان کا پنپنا بہت مشکل تھا۔ شاید اسی لیے شوق سے پڑھنا لکھنا سب چھوڑ دیا تھا۔ آج ایک عرصے بعد کتب خانے میں اپنا آپ ڈھونڈتی ہوئی آ گئی تھی اور یہاں وقت نے ایک بار پھر ابا کی یاد دلا دی تھی۔ شدتِ گردشِ ایام نے آج یہ تو باور کرا دیا کہ اپنے خوابوں کو جیے بغیر زندگی بے معنی اور بے مقصد ہے اس لیے یہ تہیہ کر کے کہ یہاں سے اٹھی کہ کتب خانے  سے  یہ رشتہ اب تا دم مرگ جڑا رہے گا۔ زندہ رہنے کے لیے خود کو زندہ رکھنا بھی پڑتا ہے اور اب میں اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی پوری کوشش کروں گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔