فرانس میں قتل عام: بوڑھے نازی ملزم کے خلاف مقدمہ خارج
10 دسمبر 2014اس مقدمے میں عدالت نے اب تک زندہ ملزم کی شناخت صرف ویرنر سی Werner C. کے طور پر کرائی اور اس کا خاندانی نام خفیہ رکھا۔ مقصد یہ تھا کہ جب تک ملزم مجرم ثابت نہ ہو جائے اس کی نجی زندگی کے تحفظ کے لیے اس کی مکمل شناخت ظاہر نہ کی جائے۔
جرمن میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی رہنما ہٹلر کے بدنام زمانہ اسٹیٹ سکیورٹی یا SS دستوں میں شامل رہنے والے اس ملزم کا نام ویرنر کرِسٹُوکاٹ Werner Christukat ہے اور 1944ء میں فرانس میں نازی دستوں کی پسپائی کے وقت اس فوجی کی عمر 19 برس تھی۔
تب یہ نازی فوجی پیچھے ہٹتے ہوئے فرانس کے ایک گاؤں اورادُور سُور گلان Oradour-sur-Glane سے گزر رہے تھے جب نازی قبضے کے خلاف فرانس کی مزاحمتی تحریک کے مسلح ارکان نے ان فوجیوں کی ایک گاڑی پر حملہ کر کے ایک ڈاکٹر کو اغواء کر لیا تھا۔
اس پر ایس ایس دستوں نے اس پورے گاؤں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا فیصلہ کیا اور اس گاؤں کے 642 باسیوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان میں 254 خواتین اور 207 بچے بھی شامل تھے۔ انتہائی طیش میں آئے ہوئے ان نازی فوجیوں نے گاؤں کے مردوں کو جانوروں کے کئی باڑوں میں جمع کرنے کے بعد اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا جبکہ خواتین اور بچوں کو گاؤں کے گرجا گھر میں بند کر کے اس کلیسا کو آگ لگا دی گئی تھی۔
ویرنر کرِسٹُوکاٹ کے خلاف مقدمے کی ابتدائی سماعت کولون کی ایک عدالت میں کی گئی۔ ملزم پر قتل اور سینکڑوں واقعات میں قتل میں مدد سے متعلق کُل 25 الزامات عائد کیے گئے تھے۔ عدالت نے یہ تمام الزامات ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کر دیے اور مقدمہ خارج کر دیا۔
اس واقعے میں استغاثہ نے کولون شہر ہی کے رہنے والے اس سابقہ نازی فوجی کے خلاف چھان بین اس سال جنوری میں شروع کی تھی۔ مقدمے کی باقاعدہ سماعت سے قبل ملزم ویرنر نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ 1944ء میں فرانس کے اس گاؤں میں موجود ایس ایس فوجیوں میں شامل تھا۔ لیکن اسے اس گاؤں کی بیرونی حدود پر سکیورٹی کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔
ملزم کے بقول اسے نہ تو یہ بتایا گیا تھا کہ گاؤں میں کیا ہونے والا ہے، نہ اس نے مقتولین کو جمع کیا تھا، نہ ہی اس نے فائرنگ کرنے والے نازی فوجیوں کی کوئی مدد کی اور نہ ہی خود کوئی گولی چلائی تھی۔
ملزم کے بقول اس نے فائرنگ کی آوازیں بھی سنی تھیں، لوگ چلا رہے تھے اور اس نے گاؤں کو جلتے ہوئے بھی دیکھا تھا، لیکن وہ اس قتل عام کا حصہ نہیں بنا تھا۔
عدالت نے یہ مقدمہ خارج کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کوئی شواہد موجود نہیں جن کی مدد سے ملزم کے اس بیان کو غلط ثابت کیا جا سکے کہ وہ کسی طرح بھی اس قتل عام میں شامل نہیں تھا۔
مزید یہ کہ اس قتل عام کے بعد اس بارے میں کئی سالہ چھان بین کے نتیجے میں عینی گواہان کے تفصیلی بیانات کی صورت میں پانچ ہزار صفحات پر مشتمل جو دستاویزی ریکارڈ تیار کیا گیا تھا، اس میں بھی اس ملزم کا نام کہیں نظر نہیں آتا۔