فرانس میں روما شہریوں کی ملک بدری کے خلاف مظاہرے
5 ستمبر 2010پولیس نے مظاہروں میں شریک افراد کی تعداد 77 ہزار بتائی ہے۔ پیرس حکام نے یہ احتجاج مسترد کر دیا ہے۔ دوسری جانب فرانس میں کرائے گئے عوامی جائزوں کے مطابق بھی 65 فیصد عوام روما (خانہ بدوش) شہریوں کو ملک بدر کرنے کی حکومتی پالیسی کے حامی ہیں۔
فرانس میں ہفتے کو ہونے والے مظاہروں کا اہتمام انسانی حقوق کی تنظیم ’دی لیگ آف ہیومن رائٹس‘ نے کیا، جس نے پیرس حکومت کی روما مخالف پالیسی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس تنظیم کے تحت منعقد کرائی گئی ریلیوں کو اپوزیشن سوشلسٹ پارٹی اور ٹریڈ یونین جنرل کنفیڈریشن آف لیبر کی حمایت بھی حاصل تھی، جبکہ مظاہرین میں طلبا، غیرقانونی تارکین وطن اور ٹریڈیونینوں کے نمائندوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔
پیرس میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اداکارہ جین برکن نے کہا کہ روما شہریوں کے حقوق کے لئے کھڑے ہونے کا فیصلہ فرانسیسی عوام کو کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا، ’’ہم ان لوگوں کو دھکیل رہے ہیں، جنہیں تاریخ میں بھی دھکیلا جاتا رہا ہے۔ ہمیں ان کا تحفظ کرنا ہوگا کیونکہ ان کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ ہمیں ان کی آواز بننا ہو گا۔‘‘
دوسری جانب فرانس کے ہمسایہ ممالک اسپین اور بیلجیئم میں بھی روما شہریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے ریلیوں کا اہتمام کیا گیا جبکہ ایسے ہی مظاہرے ہنگری اور سربیا میں بھی ہوئے۔
اُدھر فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کے اقدامات انسانی حقوق اور مائیگریشن پر یورپی یونین کے قانون کے عین مطابق ہیں۔
یورپی یونین کے قوانین کے مطابق اس کے رکن ممالک ایسے افراد کو ملک بدر کر سکتے ہیں، جو تین ماہ سے بے روزگار ہوں یا ان کے لئے سماجی بوجھ بنے ہوئے ہوں۔ انہیں ملک میں آمد کے تین ماہ کے دوران ملکی سکیورٹی کے لئے خطرہ بننے کے خدشے کے تحت بھی ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس صورت حال پر یورپی پارلیمنٹ میں آئندہ ہفتے بحث ہوگی۔
فرانس نے گزشتہ ماہ تقریباﹰ ایک ہزار روما شہریوں کو رومانیہ اور بلغاریہ واپس بھیج دیا تھا۔ خیال رہے کہ روما سے متعلق فرانس کی پالیسی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ برس بھی 11 ہزار روما ملک بدر کئے گئے تھے۔ تاہم اس مرتبہ ان اقدامات پر بحث اور پیرس حکومت پر تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف توقیر