’غیرت‘ کے نام پر ایک اور قتل
8 اگست 2017نیوز ایجنسی اے ایف کی رپورٹ کے مطابق 22 سالہ خاتون کا خاندان اس کی پسند کی شادی کے خلاف تھا جس وجہ سے یہ لڑکی اپنا گھر چھوڑ کر اس شخص کے ساتھ فرار ہو گئی تھی جس سے وہ شادی کرنا چاہتی تھی۔ کئی روز بعد وہ ملتان ہائی کورٹ پہنچی تھی تاکہ وہ اپنی شادی کو رجسٹر کر وا سکے۔
مقامی پولیسی اسٹیشن کے افسر راؤ طارق نے اے ایف پی کو بتایا،’’ لڑکی کے بھائی کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ عدالت پہنچ رہی ہے۔ جب اس نے انہیں دیکھا تو اس شخص نے دونوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔‘‘ بعد میں قتل کرنے والے شخص نے خود ہی اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔
سینیئر پولیس افسر اشفاق گجر کا کہنا ہے کہ اس شخص کی بہن تو فوری ہلاک ہو گئی تھی اور لڑکا زخمی حالت میں ہسپتال میں دم توڑ گیا۔
پاکستان میں ہر سال سینکڑوں لڑکیوں اور عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ ماضی میں غیرت کے نام پر قتل کر دینے کے جرم میں مجرم کو مقتول کے اہل خانہ کی جانب سے معاف کر دینے کی صورت میں سزا نہیں ملتی تھی۔
گزشتہ برس جولائی میں انٹر نیٹ اسٹار قندیل بلوچ کے قتل کے بعد غیرت کے نام پر قتل کر دینے کے حوالے سے قانون میں سختی کی گئی ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون کے مطابق اب قاتل کو مقتول کے اہل خانہ معاف بھی کردیں تو اسے عمر قید یا سزائے موت بھی سنائی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود اس بل کے ناقدین کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل جیسی فرسودہ روایت کے خاتمے کے لیے قوانین میں مزید سختی لانا ہوگی۔