غیر ملکیوں سے نفرت کی فضا نے ہمیں متاثر کیا، جرمن سیاستدان
28 دسمبر 2015رواں برس صوبائی دارالحکومت ڈریسڈن کا تذکرہ قریب ہر ہفتے ہی ملکی میڈیا میں ہوتا رہا۔ وہاں یورپ کے مبینہ طور پر اسلامیائے جانے کے خلاف شروع ہونے والی تحریک پیگیڈا ہر پیر کے روز احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرتی رہی۔ اس دوران غیر ملکیوں اور تارکین وطن سے نفرت بھی اس صوبے کی پہچان بن چکی ہے۔
یہی بات جرمن چانسلر میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین CDU سے تعلق رکھنے والے سیکسنی کے وزیر اعلیٰ سٹانسلاو ٹیلیش کے لیے پریشانی کا سبب بھی ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ٹیلیش نے کہا، ’’ہمیں (اپنے صوبے کی) ساکھ بہتر بنانے میں اب بہت وقت لگے گا۔‘‘
ٹیلیش کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیکسنی کی اصل پہچان وہاں کی ثقافت، روایات اور مضبوط معیشت رہی ہیں۔ ان کے مطابق عوام کی اکثریت اس صوبے میں پناہ لینے والوں کی بھرپور مدد کرتی ہے۔ اس کے باوجود صرف منفی خبریں ہی شہ سرخیوں کی زینت بنتی ہیں۔
سیکسنی کے اس قدامت پسند وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے، ’’ہمیں تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھانے کی کوشش کرنا چاہیے۔‘‘ ٹیلیش کہتے ہیں کہ دوسرے وفاقی جرمن صوبوں میں بھی تارکین وطن سے نفرت کی جاتی ہے اور ان کی پناہ گاہوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ لیکن صرف سیکسنی کی ریاست ہی خبروں میں اس لیے دکھائی جاتی ہے کیونکہ ’’ہم نے اس نفرت کی بنیاد ڈالی، ہمارے ہاں پیگیڈا تحریک کا جنم ہوا۔‘‘
سٹانسلاو ٹیلیش نے اس صورت حال کا ذمہ دار پیگیڈا تحریک کو ٹھہراتے ہوئے کہا، ’’ہمارے ہاں لوگوں کا ایک ایسا گروہ موجود ہے، جو اجنبیوں سے خوف اور ان کے خلاف نفرت کے بیج بو رہا ہے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس تحریک میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں، جو اپنی زندگی میں کبھی کسی غیر ملکی سے ملے تک نہیں، ’’اس کے باوجود وہ ان سے نفرت کرتے ہیں۔‘‘
انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اس اسلام مخالف تحریک کے حامی تارکین وطن کو جرمنی میں پناہ دینے کے شدید خلاف ہیں۔ صوبائی وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا، ’’ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کرنا تک ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہ لوگ نہ صرف غیرملکیوں کے خلاف ہیں بلکہ وہ جمہوری نظام کے بھی مخالف ہیں۔‘‘
ٹیلیش نے مزید کہا، ’’2016ء میں تارکین وطن کے جرمن معاشرے میں انضمام کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ یہ صرف مالی وسائل کی دستیابی بات نہیں، بلکہ دونوں جانب سے ایسی خواہش رکھنے اور پھر اس خواہش پر عمل بھی کرنے کی بات ہے۔‘‘ ٹیلیش کے خیال میں مہاجرین اور مقامی باشندوں کو ایک دوسرے سے روابط رکھنے چاہییں۔ انہوں نے کہا، ’’ایک دوسرے کے ساتھ گفت گو کرنا، ایک دوسرے کے بارے میں پیٹھ پیچھے بات کرنے سے کہیں زیادہ بہتر کام ہے۔‘‘
سیکسنی کی وفاقی ریاست متحدہ جرمنی کے مشرق میں واقع ہے، جو پہلے سابقہ کمیونسٹ جرمنی میں شامل تھی۔ ٹیلیش کی رائے میں متحدہ جرمنی کے مشرق میں تارکین وطن کے لیے رہائشی سہولیات کا بندوبست کرنا نسبتاﹰ آسان ہے۔ لیکن وہ یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ مہاجرین کے لیے معاشی ترقی کے امکانات جرمنی کی مغربی یا پرانی وفاقی ریاستوں میں زیادہ ہیں۔