1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان باشندوں کی واپسی سے ویسٹ مینجمنٹ کی مشکلات میں اضافہ

25 نومبر 2023

پاکستان کا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا شہر کراچی لاکھوں افغان باشندوں کا گھر رہا ہے۔ ان میں سے اکثر غیر رجسٹرڈ ہونے کی وجہ سےکچرا چن کر روزی کماتے تھے۔ ان کے جانے سے یہاں ری سائیکلنگ کے کام کو شدید دھچکا لگے گا۔

https://p.dw.com/p/4ZGa0
Pakistan Kinder suchen Plastik in einem Kanal in Peschwar
تصویر: Reuters/K. Parvez

کراچی، 20 ملین  کی آبادی کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہاں لاکھوںافغان  باشندے عشروں سے بسے ہوئے ہیں اور دستاویز کے بغیر یعنی غیر رجسٹرڈ تارکین وطن کے طور پر ان کے لیے روٹی کمانے کا واحد ذریعہ کچرا چننا اور انہیں ٹھکانے لگانا ہی رہا ہے۔  کراچی اسکول آف بزنس اینڈ لیڈرشپ کے سرکیولر  پلاسٹک انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ریسرچ ہیڈ شیزا اسلم کہتی ہیں،''یہ افغان اس کام میں بے حسی کی شکار حکومتی پالیسی میں پھنس گئے۔‘‘ شیزا اسلم نے انتباہی بیان میں کہا کہ کراچی میں کم از کم 43000 ایسے افراد ہیں جو بے قاعدہ طور پر یہ کام کر رہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر افغان باشندے ہیں۔ ''اگر وہ چلے جاتے ہیں تو یہ پاکستان کے عوام کی صحت کی تباہی کا سبب بنے گا۔‘‘

ہسپتالوں کے ویسٹ کی ری سائیکلنگ، شہریوں کی زندگیاں داؤ پر

پاکستان پلاسٹک مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ایک رکن شعیب منشی کا کہنا ہے کہ ان افغان  کارکنوں کے جانے سے  شہر کے کچرے کی ری سائیکلنگ کا کام بھی سست روی کا شکار ہو جائے گا۔ منشی کے بقول،''کوڑا منتقل کرنے والے اسٹیشن اوورلوڈ ہوں گے اور کچرا سڑکوں اور نالوں پر بہے گا اور کوڑے کو مزید جلایا جائے گا۔‘‘ شعیب منشی نے کہا ہے کہ اس سب کے نتیجے میں،'' سرکلر اکانومی کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔‘‘ انہوں نے شہری حکومت پر زور دیا ہے کہ تارکین وطن کارکنوں کے جانے سے پیدا ہونے والے خلا کو پورا کرنے کے لیے تیز رفتاری سے کام کرے۔

Pakistan | viele Bildungseinrichtungen wurden in afghanischen Flüchtlingslagern aus Geldmangel geschlossen
پاکستان کے بڑے شہروں میں زیادہ تر افغان بچے کچرا اُٹھانے کا کام کرتے تھےتصویر: Faridullah Khan/DW

اُدھر 'سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ‘ صوبائی بورڈ کے ایک اہلکار کے مطابق مزدوروں کی قلت سے پیدا ہونے والے خلاء کو پُر کرنے کے لیے منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے۔ اس اہلکار نے نام مخفی رکھے جانے کی شرط پر ایک بیان دیتے ہوئے کہا،''ہم نےافغان  باشندوں کی ملک بدری سے بہت پہلے ایک منصوبہ بنایا تھا۔ ری سائیکلرز اب ہم سے براہ راست خرید سکتے ہیں۔‘‘

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے کچھ افغان مہاجرین خوفزدہ ہیں۔ پاکستان میں آباد یہ مہاجرین اپنی کی طرف واپسی یا ملک بدری نہیں چاہتے۔ خاص طور سے اقلیتی برادری جیسے کہ ہزارہ شیعہ گروپ انتہا پسند طالبان کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے ہیں۔

افغانستان کا شاہ رخ خان اپنے مستقبل کے لیے پریشان

کچھ  دیگر کا خیال ہے کہ بس وہ پاکستان میں ہی بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ پاکستان ہی ان کا واحد ملک ہے بہت سے نوجوان افغانوں نے یہیں آنکھ کھولی اور وہ اس سرزمین کو نہیں چھوڑنا چاہتے۔ بیس سالہ نوجوان موسیٰپاکستان  میں پیدا ہوا اور اس نے کبھی افغانستان کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ اس نے بھی اپنا پورا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بیان دیتے ہوئے کہا،''ہمارے رشتہ دار ہمیں نہ آنے کا کہہ رہے ہیں لیکن ہمارے پاس چوائس بہت کم ہے۔‘‘

Symbolbild Plastikflaschen
پلاسٹک ویسٹ ٹھکانے لگانا اور اس کی ری سائکلنگ نہایت مشکل کام ہوتا ہےتصویر: PantherMedia/IMAGO

ایک ماہ پہلے تک وہ اور اس کا بھائی کچرے کو چھان کر اور ری سائیکلنگ کے لیے کوئی بھی قیمتی چیز جیسے کہ گتے، دھات اور پلاسٹک کی بوتلیں بیچ کر تقریباً 120000 روپے ماہانہ کم لیا کرتے تھے۔ ان دونوں بھائیوں کے پاس افغان شہری کارڈ ہے، ایک حکومتی سرکاری دستاویز جو انہیں پاکستان  میں قانونی طور پر رہنے اورعوامی خدمات تک رسائی کی اجازت دیتی ہے نیز انہیں غیر رسمی معیشت کے لیے کام کرنے کا مجاز بھی بناتا ہے۔ لیکن اب پاکستان میں قانونی طور پر رہنے والے افغانوں کو بھی خوف کہ انہیں کسی بھی وقت ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔

’’کاش پاکستان میں بھی کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا نظام ہو‘‘

ک م/ ع ت(روئٹرز)