1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمقبوضہ فلسطینی علاقے

غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد ریکارڈ سے 40 فیصد زیادہ، لینسیٹ

10 جنوری 2025

طبی جریدے لینسیٹ میں جمعے کو شائع ہونے والی تحقیق میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اسرائیل حماس جنگ کے پہلے نو ماہ کے دوران غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد غزہ کی وزارت صحت کے ریکارڈ کے مقابلے میں بھی 40 فیصد زیادہ تھی۔

https://p.dw.com/p/4p2IW
برطانوی محققین کی قیادت میں کام کرنے والے اس گروپ نے اندازہ لگایا کہ 59 فیصد اموات خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی تھیں
برطانوی محققین کی قیادت میں کام کرنے والے اس گروپ نے اندازہ لگایا کہ 59 فیصد اموات خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی تھیںتصویر: Saeed Jaras/Middle East Images/IMAGO

سات اکتوبر 2023 کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے دہشت گردانہ حملے کے جواب میں اسرائیل نے حماس کے خلاف فوجی مہم کا آغاز کر دیا تھا۔ تب سے غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک تلخ بحث کا موضوع بن چکی ہے۔

تاہم اب ایک نئے مطالعے میں حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار، ایک آن لائن سروے اور سوشل میڈیا پر اموات سے متعلق پوسٹ کی گئی اطلاعات کے تجزیے سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس جنگ کے پہلے نو ماہ کے دوران غزہ میں شدید نوعیت کے زخموں کے باعث 55,298  سے لے کر 78,525 کے درمیان انسانی اموات ہوئیں۔

اس تحقیق میں اموات کی تعداد کا 'بہترین‘ تخمینہ بھی 64,260  لگایا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وزارت صحت اس وقت تک اموات کی تعداد تقریباً 41 فیصد کم بتا رہی تھی۔ اس ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ یہ تعداد غزہ پٹی کی جنگ سے پہلے کی آبادی کا 2.9 فیصد، یا تقریباً ہر 35 میں سے ایک فرد کے برابر بنتی ہے۔

برطانوی محققین کی قیادت میں کام کرنے والے اس گروپ نے اندازہ لگایا کہ 59 فیصد اموات خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی تھیں۔

اس نئے مطالعے میں صرف بڑی اور تکلیف دہ چوٹوں سے ہونے والی اموات کو شامل کیا گیا ہے۔ اس لیے اس میں صحت کی دیکھ بھال یا خوراک کی کمی یا ان ہزاروں لاپتہ افراد کو شامل نہیں کیا گیا، جو ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ تاہم نیوز ایجنسی اے ایف پی آزادانہ طور پر غزہ پٹی میں انسانی ہلاکتوں کی اس تعداد کی تصدیق سے قاصر رہی۔

اسرائیل نے بارہا غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کی ساکھ پر سوال اٹھائے ہیں لیکن اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یہ قابل اعتماد ہیں
اسرائیل نے بارہا غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کی ساکھ پر سوال اٹھائے ہیں لیکن اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یہ قابل اعتماد ہیںتصویر: Jim Hollander/Matrix Images/picture alliance

جمعرات کو غزہ کی وزارت صحت نے کہا تھا کہ 15 ماہ کی اس جنگ میں کل تک 46,006 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ اسرائیل میں سن 2023 میں حماس کے حملے کے نتیجے میں 1208 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ اسرائیل نے بارہا غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کی ساکھ پر سوال اٹھائے ہیں لیکن اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یہ قابل اعتماد ہیں۔

نئی تحقیق کن اعداد و شمار کی بنیاد پر کی گئی؟

محققین نے اس نئے مطالعے میں وہ شماریاتی طریقہ استعمال کیا، جسے ''کیپچر - ری کیپچر‘‘ کہا جاتا ہے اور جو اس سے قبل دنیا بھر میں ہونے والے تنازعات میں ہلاکتوں کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

تجزیے میں تین مختلف فہرستوں کے اعداد و شمار کو استعمال کیا گیا۔

  • پہلی فہرست غزہ کی وزارت صحت کی فراہم کردہ ہے، جس میں ہسپتالوں یا مردہ خانوں میں لاشوں کی شناخت کی گئی۔
  • دوسری فہرست وزارت صحت کی جانب سے شروع کیے گئے ایک آن لائن سروے کی تھی، جس میں فلسطینیوں نے اپنے رشتہ داروں کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی۔
  • تیسری فہرست سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جیسے کہ ایکس، انسٹاگرام، فیس بک اور واٹس ایپ سے حاصل کی گئی، جہاں مرنے والوں سے متعلق معلومات شیئر کی جاتی تھیں تاکہ ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت کی تصدیق کی جا سکے۔

لندن اسکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن میں وبائی امراض کی ماہر زینا جمال الدین نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''ہم نے تجزیے میں صرف ان لوگوں کو رکھا، جن کی موت کی تصدیق ان کے رشتہ داروں نے یا مردہ خانوں اور ہسپتالوں نے کی تھی۔‘‘

یہ طریقہ کتنا قابل اعتبار ہے؟

محققین نے ان فہرستوں کی اچھی طرح چھان بین بھی کی تاکہ کوئی نام دو مرتبہ شامل نہ ہو۔

قبل ازیں امریکہ میں قائم ہیومن رائٹس ڈیٹا اینالیسز گروپ کے شماریات دان پیٹرک بال گوئٹے مالا، کوسووو، پیرو اور کولمبیا کے تنازعات میں ہلاکتوں کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے ''کیپچر - ری کیپچر‘‘ کا طریقہ کار استعمال کر چکے ہیں۔ پیٹرک بال نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ یہ اچھی طرح سے آزمائی ہوئی تکنیک صدیوں سے استعمال ہوتی رہی ہے اور محققین غزہ کے لیے ''اچھے (زیادہ درست) اندازے‘‘ تک پہنچ چکے ہیں۔

محققین نے ان فہرستوں کی اچھی طرح چھان بین بھی کی تاکہ کوئی نام دو مرتبہ شامل نہ ہو
محققین نے ان فہرستوں کی اچھی طرح چھان بین بھی کی تاکہ کوئی نام دو مرتبہ شامل نہ ہوتصویر: Bashar Taleb/AFP

برطانیہ کی اوپن یونیورسٹی میں اپلائیڈ شماریات کے پروفیسر کیوین میک کانوے نے اے ایف پی کو بتایا کہ نامکمل ڈیٹا سے تخمینہ لگاتے وقت ''لامحالہ بہت زیادہ غیر یقینی صورتحال‘‘ پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ یہ ''قابل تعریف‘‘ ہے کہ محققین نے اپنے تخمینوں کو جانچنے کے لیے تین دیگر شماریاتی تجزیوں کے طریقوں کا استعمال کیا۔ انہوں نے مزید کہا، ''مجموعی طور پر مجھے یہ اندازے معقول حد تک مدلل لگتے ہیں۔‘‘

لاپتہ افراد کو شامل نہیں کیا گیا

اس تحقیق میں لاپتہ افراد کو شامل نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے رابطہ کار دفتر 'او سی ایچ اے‘ کے مطابق غزہ پٹی کے تقریباً 10 ہزار باشندوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ ایسے کئی دیگر بالواسطہ عوامل بھی ہیں، جن کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو جنگی ہلاکتوں میں شامل کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ صحت کی دیکھ بھال، خوراک، پانی اور صفائی کی کمی یا بیماریوں کا پھیلاؤ۔ اکتوبر 2023 سے ان سب نے بھی غزہ پٹی کو متاثر کیا ہے۔

جولائی میں محققین کے ایک اور گروپ نے دی لینسیٹ میں شائع ہونے والے ایک متنازعہ اور نان پیئر ریویوڈ خط میں بالواسطہ اموات کی شرح کا استعمال کرتے ہوئے یہ تجویز کیا تھا کہ 186,000 اموات کو بالآخر غزہ کی جنگ سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔

تاہم اس نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ برونڈی اور مشرقی تیمور جیسے ممالک کے مقابلے میں غزہ میں ایسی عددی پروجیکشن ''جنگ سے پہلے کی بیماریوں کے بوجھ میں واضح فرق‘‘ کی وجہ سے غیرموزوں ہو سکتی ہے۔

زینا جمال الدین کے مطابق وہ جانتی ہیں کہ ان کی اس نئی تحقیق کے بارے میں ''مختلف اطراف سے تنقید کی جائے گی۔‘‘ انہوں نے انسانی اموات کی تعداد کے بارے میں بحث کرنے کے 'جنون‘ کے خلاف بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بات پر زور دیا جانا چاہیے کہ ''وہاں شرح اموات بہت زیادہ ہے۔‘‘

ا ا / م م، ع ا (اے ایف پی، لینسیٹ)