1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستاسرائیل

غزہ میں عارضی فائربندی پر عمل درآمد شروع

25 نومبر 2023

فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی فائر بندی معاہدے پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے، تاہم اسرائیلی فوج کے مطابق اس معاہدے کی مدت کے خاتمے پر فوجی آپریشن دوبارہ شروع کر دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/4ZPFg
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بڑی عسکری کارروائیاں کی گئیںتصویر: Francisco Seco/AFP/Getty Images

اسرائیل اور فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کے تحت چار روز تک فائر بندی نافذالعمل رہے گی، جب کہ اس دوران غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد کی تقسیم کے علاوہ حماس پچاس اسرائیلی یرغمالی رہا کرے گی اور اس کے جواب میں اسرائیل سے ڈیڑھ سو فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔

اسرائیل اور حماس کی موجودہ جنگ: کب کیا ہوا؟

غزہ میں حماس کے خلاف عسکری کارروائی میں وسعت

سات اکتوبر کو حماس کے دہشت گردانہ حملے میں بارہ سو اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے تھے، جب  کہ حماس کے جنگجوؤں نے دو سو چالیس کے قریب اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ حماس کے اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں بڑی عسکری کارروائی شروع کر دی تھی، جس کے نتیجے میں غزہ میں وزارت صحت کے مطابق تقریباً 14 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

فائربندی کے نفاذ کے بعد لبنانی سرحد پر بھی مقابلتاً سکون

اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی فائر بندی پر عمل درآمد کے بعد لبنانی سرحد پر بھی مقابلتاً سکون دکھائی دے رہا ہے۔ لبنان کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق جنوبی سرحد پر عالمی وقت کے مطابق صبح پانچ بجے سے مکمل سکون ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ غزہ میں حماس کے خلاف عسکری کارروائی کے ساتھ ساتھ اسرائیل لبنان میں ایران نواز شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ کے خلاف بھی برسرپیکار ہے۔ فی الحال حزب اللہ کی جانب سے اس ڈیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

قطری ثالثی میں عسکری تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کے تحت غزہ میں چار روزہ فائربندی پر اتفاق کیا گیا ہے،  اس دوران غزہ کے شہریوں تک ہیومینیٹیرین امداد پہنچائی جائے گی۔ اس کے علاوہ حماس یرغمال بنائے گئے پچاس اسرائیلی شہری رہا کرے گا، جس کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں میں قید ڈیڑھ سو فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے لیے امریکہ اور مصر نے بھی مذاکرات میں مدد کی تھی۔

واضح رہے کہ حماس کی طرح حزب اللہ بھی امریکہ اور یورپی یونین کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے۔

'فریقین کو ایک دوسرے پر اعتبار نہیں‘

کنگز کالج لندن سے وابستہ  جنگی امور کے محقق مائیک مارٹن کے مطابق اس جنگ کا سب سے بڑا مسئلہ اعتبار کا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''کوئی بھی فریق دوسرے پراعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔‘‘ مارٹن کے مطابق فریقین اس وقت ٹھیک اسی پوزیشن پر موجود ہیں، جہاں انہوں نے جنگ روکی۔

آج جمعے سے اس معاہدے پر عمل درآمد کے آغاز کے بعد فریقین پہلے مرحلے میں کچھ قیدی آزاد کریں گے۔ مارٹن کے مطابق حماس نے اس معاہدے سے قبل اصرار کیا تھا کہ اسرائیل غزہ پٹی کی فضائی حدود میں پروازوں سے پرہیز کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حماس نے اسرائیلی قیدیوں کو غزہ کے مختلف مقامات پر بکھیرا ہوا ہے اور اب انہیں خفیہ طور پر تبادلے کے مقام پر منتقل کرنا چاہتی ہے۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی میں متعدد سرنگیں تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ زیر زمین سرنگیں حماس اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔

Gazastreifen Khan Yunis | Feuerpause
غزہ میں لاکھوں افراد امداد کے منتظر ہیںتصویر: Mustafa Hassona/Anadolu/picture alliance

امدادی ٹرک غزہ پہنچنا شروع

حماس اور اسرائیل کے درمیان فائربندی کے ساتھ ہی درجنوں امدادی ٹرک مصر سے غزہ پہنچا شروع ہو گئے ہیں۔ رفح سرحدی کراسنگ سے غزہ میں داخل ہونے والے ان دو سو ٹرکوں پر ایک لاکھ تیس ہزار لٹر ڈیزل کے علاوہ چار ٹرکوں کے ذریعے گیس بھی پہنچائی گئی ہے۔

غزہ کی جنگ سے پہلے مصر سے غزہ پہنچنے والے امدادی ٹرکوں کی تعداد یومیہ پانچ سو کے قریب ہوتی تھی۔ اقوام متحدہ کی کوشش ہے کہ اس عارضی فائر بندی وقفے میں زیادہ سے زیادہ امدادی سامان غزہ پہنچا دیا جائے۔

اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟

اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، جرمن وزیر خارجہ

وفاقی جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے ایک بار پھر اسرائیل کے اپنے دفاع کے حقپر زور دیا ہے۔ انہوں نے جرمن شہر کارلسروہے میں منعقد ہونے والے گرین پارٹی کے وفاقی کنوینشن میں کہا کہ اگر حماس کی دہشت گردی کا مقابلہ نہ کیا گیا، تو اسرائیل کو کبھی بھی تحفظ اور سلامتی میسر نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف نہیں بلکہ حماس کے خلاف لڑ رہا ہے۔ بیئربوک نے تاہم اس امر پر بھی  زوردیا کہ اگر فلسطینیوں کو اپنے بہتر مستقبل کے آثار نظر نہ آئے، تو اسرائیل بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ جرمن وزیر خارجہ کے بقول، چاہے دو ریاستی حل آج بہت دور ہی کیوں نہ لگے، آنے والے کل کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے۔

ع ت / ک م، م م (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)