1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غربت، گندگی اور سیلاب، سندھ میں خسرے کے پھیلاؤ کا سبب

4 جنوری 2013

غربت، گندگی اور سیلاب کی تباہ کاریاں سندھ میں خسرہ پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ جہاں اس بیماری سے پچھلے دو ہفتے میں 200 سے زائد بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/17ELf

ڈاکٹر وں کا کہنا ہے کہ یہ بیماری اتنی خطرناک نہ ہوتی اگر سندھ میں اتنی غربت اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں صفائی کا فقدان نہ ہوتا۔ بچوں کے امراض کی ماہر ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ خاص طور پر گزشتہ سالوں کے سیلابوں کے باعث سندھ میں غربت میں اضافہ ہوا ہے اور پھر دیہی علاقوں میں ماحول بھی خسرے کے وائرس کے لیے زیادہ موزوں ہوتا ہے۔

ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بچوں میں خوراک میں غذایت کی کمی بھی اس بیماری کے پھلنے پھولنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ یہ بیماری جسم کے کسی حصے کو بھی متاثر کر سکتی ہے لیکن خاص طور پر دماغ پر اس کا اثر خاصا مہلک ہوتا ہے۔ اس بیماری کے جراثیم ناک کے راستے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور پھر کہیں بھی حملہ کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے تو خاص طور پر اس سے متاثر ہوتے ہی ہیں لیکن یہ مرض عمر کے کسی بھی حصے میں لاحق ہوسکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک علامیے میں یہ کہا گیا ہے کہ سندھ میں ویکسینیشن کی کوششیں تندہی سے نہیں کی گئیں جس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پنجاب میں بہتر نتائج اسی لیے رہے ہیں کہ وہاں اس کام کو سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔ ہر چند کہ وہاں بھی یہ مہم صرف 65 فیصد کامیاب رہی ہے جو کہ ہدف سے پندرہ فیصد کم ہے۔
سندھ کے وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد کہتے ہیں کہ کسی قسم کی غفلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے محکمہ صحت کے کچھ افسران کو معطل بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر حالت میں حکومت اس مرض سے نبٹے گی۔شمالی سندھ کے تقریبا تمام اضلاع میں ایک ہنگامی ویکسینیشن مہم کا اعلان کر دیا گیا ہے جس میں 9 جنوری تک 29,000 بچوں کو ویکسین پہنچائی جائے گی۔
سندھ کے غریب عوام البتہ ابھی تک کسی مربوط مدد آنے کے منتظر ہیں۔ دیہات کے غریب لوگ کہتے ہیں کہ ابھی تک سرکار کی طرف سے کم از کم ان تک کوئی نہیں آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کسمپرسی کے عالم میں بچوں کی اموات رکی نہیں ہیں بلکہ خدشہ ہے کہ مزید بچے اس بیماری سے مر سکتے ہیں۔ سرکاری مدد نہ ملنے کے باعث جو بھی ان کے ہاتھ لگتا ہے وہ اس سے وہ مدد کی اپیل کرتے ہیں لیکن اگر کوئی بھی ان کے لیے کچھ نہ کرسکے تو، بقول ایک غریب آدمی کے، پھر تو اللہ ہی مالک ہے۔
ڈاکٹر یہ بھی کہتے ہیں کہ دیہات میں تو یہ بیماری تباہی پھیلا ہی رہی ہے، شہروں کو بھی اس سے بچا ہوا نہیں سمجھا جاسکتا اور کراچی کے بچوں کے لیے بھی یہ بیماری ایک خطرہ ہی ہے۔

Krankenpfleger China
سندھ میں ویکسینیشن کی مہم بھرپور طریقے سے نہیں کی گئیتصویر: STR/AFP/Getty Images

رپورٹ : رفعت سعید، کراچی

ادارت : عصمت جبیں