غرباء کے لیے بغیر پیسہ خریداری، کراچی کے نوجوانوں کی کاوش
18 نومبر 2015صمد خالد کے پاس سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے موجود واحد جرسی بہت بوسیدہ ہو چکی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ علاقے میں مفت تعلیم دینے والے اسکول میں پڑھنے والے اس کے بیٹے کے جوتے بھی کئی جگہ سے پھٹ چکے تھے اور وہ نئے جوتوں کی فرمائش کر رہا تھا۔ دن بھر محنت کے باوجود بھی صمد کو اتنی اجرت ملتی ہے کہ وہ بمشکل گھر کا چولہا ہی جلا پاتا ہے۔ ایسے میں علاقے میں موجود منزل اسکول کی انتظامیہ کی طرف سے صمد کو کچھ کوپن دیے گئے کہ وہ 15 نومبر کو آ کر بغیر پیسوں کے کچھ خریداری کر سکتا ہے۔
انتہائی غریب اور ضرورت مند افراد کے لیے مفت خریداری کا یہ موقع کراچی کے کچھ افراد کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ’دی اسٹریٹ اسٹور‘ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا بازار رہا، جہاں رکھی گئی تمام اشیا مستحق افراد نے اپنی مرضی سے اپنے لیے منتخب کیں۔ پاکستان میں اسٹریٹ اسٹور منعقد کرنے والے جوڈ ایلن نامی ایک نوجوان ہیں، جو خود ٹیکسٹائل کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے جوڈ ایلن کا کہنا تھا، ’’یہ اس سال کے اوائل کی بات ہے جب میں کراچی پریس کلب کے باہر ایک بے گھر خاندان سے ملا۔ انسانیت کے ناطے اس خاندان کی مدد کرتے ہوئے احساس ہوا کہ بے گھر افراد کس قدر سخت مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور یہ مسئلہ پاکستان میں کس قدر شدت اختیار کر رہا ہے۔ ایسے لوگوں کی مدد کے حوالے سے انٹرنیٹ پر سرچنگ کے دوران ’دی اسٹریٹ اسٹور‘ نام کی ایک ویب سائٹ نظر سے گزری۔ یہ ویب سائٹ بنیادی طور پر جنوبی افریقہ میں اسی نام سے شروع ہونے والی ایک مہم کی تھی جس کے تحت ملک کے کسی بھی علاقے میں ایک دن کے لیے ایک ایسا عارضی اسٹور قائم کیا جاتا ہے، جہاں بے گھر یا انتہائی غریب افراد کو ان کی اپنی پسند سے مفت خریداری کا موقع ملتا ہے۔ یہ مہم دنیا بھر میں کامیاب ہو رہی ہے۔ ہماری طرف سے لگایا گیا اسٹور پاکستان کا پہلا جبکہ اس مہم کے سلسلے میں لگنے والا دنیا کا 349 واں اسٹورتھا۔‘‘
اسڑیٹ اسٹور کا ذکر جوڈ ایلن نے اپنے دوستوں سے کیا تو ان میں سے دس دوستوں کے گروپ نے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کا آغاز کیا۔
اب سوال یہ تھا کہ اسٹریٹ اسٹور کہاں لگایا جائے اس بارے میں جوڈ ایلن کہتے ہیں، ’’کافی چھان بین کے بعد باتھ آئی لینڈ کے قریب ریتی لائن نام کے ایک پسماندہ علاقے کا انتخاب کیا گیا۔ اس علاقے میں بسیرا کرنے والے بیشتر لوگ یا تو بے گھر ہیں یا پھر غربت کے ستائے ہوئے۔ یہاں ہماری ملاقات منزل اسکول کی انتظامیہ سے ہوئی۔ اس اسکول کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں غریب اور بے گھر بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ ہم نے اس اسکول کے اشتراک سے اسی علاقے میں اسٹریٹ اسٹور لگانے کا فیصلہ کیا۔‘‘
اس اسٹریٹ اسٹور کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ یہاں لوگوں کی عزت نفس مجروح کیے بغیر انہیں ایک مقررہ حد تک اپنی پسند کی اَشیاء منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا جو انہیں بغیر کسی قیمت کے فراہم کی گئیں، ’’تقریباً ایک ہزار اشیاء رکھی گئیں، جن میں جوتے، کپٹرے، مختلف آرائشی سامان، بچوں کے لیے کھلونے اور گھریلو استعمال کی اشیاء شامل تھیں۔ یہ تمام نئی اور پرانی چیزیں عام لوگوں کی جانب سے عطیہ کی گئی تھیں۔ ہم نے اس اسٹور کو لگانے سے قبل اس بات کی چھان بین کی تھی کہ یہاں ان ہی لوگوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے گا جو حقیقی معنوں میں مستحق ہوں گے۔ اس کام میں منزل اسکول کی مدد سے ہم نے پچاس مستحق خاندانوں کا انتخاب کیا۔‘‘
ابتدا میں جوڈ ایلن کا خیال تھا کہ اس مہم کو شاید زیادہ رسپانس نہ ملے تاہم جب اسے شروع کیا گیا تو لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اسے سراہا اور اس میں حصہ لیا، ’’ابتدائی طور پر فیصلہ کیا گیا کہ ہر خاندان کو پانچ اشیاء مفت لینے کی سہولت دی جائے گی۔ لیکن اس بازارکے لگنے سے پہلے لوگوں کی جانب سے جو عطیات دیے گئے، ان کو دیکھتے ہوئے خاندانوں کی تعداد پچاس سے بڑھا کر سو کر دی گئی اور ہر خاندان کو دس سے پندرہ اشیاء کی خریداری کی سہولت دی گئی۔ اس کام کے لیے ہم نے لوگوں کو بازار لگنے سے پہلے کوپن دیے تھے اور دعوت دی تھی کہ وہ مقررہ تاریخ کو اپنے کوپن کے ساتھ اسٹور پر آئیں، جہاں ان کو رقم خرچ کیے بغیر ان کی پسند کی خریداری کروائی جائے گی۔‘‘
جوڈ ایلن اور ان کے دوست پہلے اسٹریٹ اسٹور کی کامیابی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے یہ سلسلہ آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگلا اسٹریٹ اسٹور تین ماہ بعد یعنی اگلے برس فروری کے اوائل میں کراچی کے ہی کسی علاقے میں لگایا جائے گا، جس کی تشہیر سوشل میڈیا کے ذریعے کی جائے گی تاکہ اس مہم میں شامل ہونے کے خواہشمند افراد کو رسائی دی جا سکے۔