1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عید کی دم توڑتی روایات

1 مئی 2022

وقت کے ساتھ ساتھ عید کی گہما گہمی اور ماہ صیام کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔ مصروف زندگی میں روایات کے رنگ پھیکے پڑنے لگے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Ag5d
DW Urdu Blogerin Arifa Rana
تصویر: privat

بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ روایات بھی بدل جایا کرتی ہیں۔ عید بچپن کی عید جیسی رہی ہی نہیں۔ نئی نسل کو معلوم ہی نہیں کہ عیدیں کیسی ہوا کرتی تھیں۔گہما گہمی تو اب بھی موجود ہ ہوتی ہے لیکن اس کی وجوہات بدل چکی ہیں۔ عید کی روایات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دم توڑتی جا رہی ہیں۔ شاید ہم وہ آخری نسل ہیں جنہوں نے عید کو اس کے روایتی انداز میں منایا تھا۔ لیکن ہم زندگی کی دوڑ میں اس قدر مصروف ہیں کہ ہمارے پاس ان روایات کو دہرانے کا وقت ہی نہیں بچتا۔

ایک وقت تھا کہ روزہ رکھنے اور عید منانے کا جوش و خروش رمضان کا چاند نظر آنے سے قبل ہی شروع ہو جاتا تھا۔ جس میں رمضان کی عبادات کے ساتھ ساتھ آنے والی عید کی منصوبہ بندی خاص طور پر شامل ہوتی تھی۔ خاندان یا محلے داروں کے ساتھ کم از کم ایک سحری یا افطاری کا اہتمام لازمی ہوتا تھا، جس کا پس پردہ مقصد ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں بانٹنا اور اللہ کی نعمتوں کو ضرورت مندوں تک پہنچانا ہوتا تھا۔ علاقے کے ان گھروں کی لسٹ بنائی جاتی تھی جہاں راشن پہنچانا ہوتا تھا تاکہ وہ لوگ بھی اطمینان سے اپنا رمضان گزار سکیں۔ مگر اب مصروف زندگی اور ہوٹلوں پر افطاریوں کی دعوتوں کے سلسلے نے یہ بنیادی معاشرتی اصول ہماری زندگیوں سے تقریباﹰ ختم ہی کر دیا ہے۔

عید کی آمد کے ساتھ ہی لڑکیوں کو اپنے کپڑوں کی اور میچنگ چیزوں کی فکر شروع ہو جایا کرتی تھی اور لڑکوں کو اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کی۔ ویسے تو کہا جاتا ہے عید کے لباس کے لیے نیا ہونا شرط نہیں ہے بس صاف ستھرا دھلا ہوا  ہونا چاہیے۔ یہ بات اس لیے بھی کہی جاتی ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اس موقعے پر نیا لباس سلوانے کی استطاعت نہیں رکھتے اور کچھ سگھڑ ماؤں نے خاندان کی کسی نہ کسی شادی پر بنے کپڑے سنبھال رکھے ہوتے ہیں کہ عید پر کام آئیں گے۔ جو  لڑکیا ں نیا جوڑا بنوانے کے چکر میں ہوتی ہیں ان کے رمضان کے ابتدائی بیس دن ڈیزائن اور رنگ کے انتخاب کے چکر میں ہی گزر جاتے ہیں۔ اور آخری دنوں میں وہ درزیوں  کی منتیں کرتی اور درزی نخرے دکھاتے نظر آتے تھے۔ اب تو نئے دور کے ریڈی میڈ کپڑوں نے اس ہنگامے کو کافی حد تک ختم کر دیا ہے۔ بس بازار گئے قیمتی سے قیمتی ڈیزائنر جوڑا خریدا اور پہن لیا۔ تاکہ حلقہ احباب میں شیخی بگھاری جا سکے۔

چوڑیاں اور مہندی لڑکیوں کا خاص سنگھار ہوتا ہے۔ عید کے دنوں میں اس سنگھار میں زمانہ بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ بس جو سہیلیاں چاند رات کو جمع ہو کر ایک دوسرے کو مہندی لگاتی تھیں اور ساتھ ساتھ خوش گپیوں کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ اس کی جگہ مہندی پارلر نے لے لی ہے۔ بس جاؤ اور ایک ماہر سے مہندی لگوا کر گھر آ جاؤ نہ کوئی میل جول نہ مہندی لگانے میں محبت کا وہ مزہ رہا۔

 عید کی کافی سر گرمیاں اب مفقود ہو چکی ہیں۔ جن میں سر فہرست لڑکیوں کا اپنی سہیلیوں کو عیدی دینے کے لیے ان کے گھر جانا ہوتا تھا۔ عیدی کیا ہوتی تھی بس مہندی، چوڑیا ں، سویاں اور عید کارڈ جس میں ڈھیر سارا خلوص شامل ہوتا تھا۔ عید کارڈ کی خریداری کا بھی اپنا ہی ایک مزا ہوتا تھا۔ بازاروں میں طرح طرح کے عید کارڈ کے سٹال لگا کرتے تھے۔ ان اسٹالز پر ہر عمر کی مناسبت سے کارڈز دستیاب ہوتے تھے۔ اگر کارڈ آپ نے کسی کم عمر بچے کو دینا ہوتا تو کوئی کارٹون یا کسی پیارے بچے کی تصویر والا مناسب رہتا تھا، اگر  کارڈ کسی ہم عمر کے لیے ہے تو کسی خوبصورت نظارے یا پھر پھولوں سے بھرے کارڈ کا انتخاب کیا جاتا تھا، اور اگر کارڈ کسی بزرگ کو دینا ہوتا توقرآنی آیات والا کارڈ منتخب کیا جاتا تھا۔ زمانہ بدلا اور کارڈ  کی جگہ ایس ایم ایس نے لے لی تو جناب ہم سب بھی ماڈرن ہوگئے عید مبارک لکھا اور سینڈ ٹو آل کر دیا۔ ایک بہت اہم چیز جو عید کارڈ پر لکھی جاتی تھی جو عموماً لڑکیاں اپنی سہلیوں کو لکھتی تھیں وہ تھے عید کے اشعار ان کے انتخاب میں جو ایک بار ہمیشہ مدنظر رکھی جاتی تھی وہ یہ تھی وہ کسی اور مشترکہ سہیلی کے کارڈ پر نہ لکھا گیا ہو۔ ان اشعار کے لیے کسی شاعر کی ضرورت نہیں ہوتی تھی بس خود سے ہی کچھ بنا لیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر ڈبے میں ڈبہ ڈبے میں کیک، میری سہیلی لاکھوں میں ایک۔

رمضان کے آخری دس دنوں میں طاق راتوں کی عبادتوں کے ساتھ ساتھ عید کارڈ ڈاک کے ذریعے دور دراز رہنے والے عزیز و اقارب کو بھیجنے کا  سلسلہ بھی چلتا تھا۔ محکمہ ڈاک پر بھی اس کا بھاری بوجھ ہوا کرتا تھا کہ تما م تر عید کارڈز انہیں عید سے قبل وصول کنندہ تک پہنچانے ہوتے تھےکیونکہ عید کی خوشی کسی اپنے کے عید کارڈ ملنے سے دوبالا ہو جایا کرتی تھی۔

انتیسویں روزے افطار کے بعد سب کی محافل گھروں کی چھت پر جمتی تھی۔ خاص طور سے محلے کا وہ گھر مرکز ہوتا تھا جس کی چھت سب سے اونچی ہوا کرتی تھی۔ جو مزہ خود چاند ڈھونڈنے کا ہوا کرتا تھا وہ میڈیا پر کیے ہوئے اعلان سے نہیں آتا تھا، دکھا؟ نہیں دکھا یہ آوزیں تب تک سنائی دیتی تھیں جب تک کسی ایک جانب سے چاند نظر  آنے شور نہیں مچ جاتا تھا۔ سب لوگ نئے چاند کی دعا مانگتے اور چھوٹے بڑوں کو چاند مبارک کہہ کر ان سے پیار اور دعائیں وصول کرتے تھے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ عید کے چاند پر سیاست ہی ختم نہیں ہوتی۔

اب بات کریں کچھ عید کے دن کی، آج کل ایک رواج چل پڑا ہے جو عید کا دن سو کر گزارنے کا۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا بلکہ گھر کے تمام مرد حضرات  بلا لحاظ عمر کیونکہ اس میں بچے بھی شامل ہوتے تھے۔ صبح سویرے تیار ہو کر عید کی نماز کے لیے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ جانا ایک راستے سے اور واپسی دوسرے راستے سے ہوتی تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے عید مل کر ان کو اپنی خوشی میں شامل کیا جا سکے یا ان کی خوشی میں شامل ہوا جا سکے۔ اسی دوران لڑکیاں اپنے عید کے لباس پہن کر تیار ہو جایا کرتی تھیں کیونکہ عید نماز سے واپسی پر ان کو اپنے ابا یا دادا ابا سے عیدی جو لینی ہوتی تھی۔ امی عید کے میٹھے پکوان جن میں سر فہرست شیر خورما ہوتا، وہ تیار کر چکی ہوتی تھا۔ اسی دوران محلے کے مختلف گھروں میں میٹھا بھی بانٹا جاتا تھا۔ اسی مناسبت سے اس کو سویوں والی عید کہا جاتا تھا۔ ایک اور روایت یہ تھی کہ عموماً دوپہر کے کھانے کے بعد سب خاندان کے بڑے گھر میں جمع ہوتے جہاں کھانا پینا، ہنسی مذاق اور عیدیاں بٹورنے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ باقی دوستوں اور تعلق داروں سے ملنے ملانے کا مںصوبہ اگلے دن پر اٹھا رکھا ہوتا تھا۔

یہ سب باتیں میں نے اس لیے دہرائیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سب معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ میری ان باتوں سے بہت سے لوگوں کی پرانی یادیں، ہنسی، قہقہے، شرارتیں ان کے ذہنوں میں تازہ ہو گئی ہوں گیں۔ کچھ ہم یہ روایات بھول گئے۔ کچھ ہمیں ٹیکنالوجی اور زندگی کی دوڑ نے اس قدر مصروف کر دیا کہ ان لمحوں سے ہم خوشی کشید کرنا بھول گئے۔ عید پر اجتماع کے ساتھ عید نماز پڑھ لینا ہی عید کی روایت نہیں بلکہ اور بھی بہت خوبصورت روایات ہیں جو ہمیں نئی نسل کو متعارف کروانا چاہیے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنی روایات کو خود دہرانا پڑے گا تبھی یہ خوبصورت روایات آگے منتقل ہوں گی۔