1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عورت مارچ میں شرکت کریں تو شاید سمجھ آ جائے

لائبہ زینب ( لاہور)
6 مارچ 2021

عورت مارچ لکھنے کی دیر ہوتی ہے، کمنٹس میں اس قدر شدید حملے شروع ہو جاتے ہیں کہ اکثر اپنی پوسٹس کے نوٹیفیکیشن بند کرنے پڑتے ہیں۔عورت مارچ  کے موقع پر ایک مرتبہ پھر مجھ جیسی بہت سی عورتوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3qH6I
تصویر: Privat

میری ذاتی فیس بک پروفائل پر پبلک پوسٹس پر ہر کسی کو کمنٹس کرنے کی اجازت تھی مگر اس سال مجھے یہ سہولت صرف اپنے دوستوں تک محدود کرنی پڑی۔ وجہ یہی رقیق حملے اور گھٹیا جملے تھے جو میری ذہنی صحت کو متاثر کر رہے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ میرے فیس بک پیج پر ہر طرح کے کمنٹس موجود ہیں۔

اب میری پروفائل پکچر پر میرا جسم میری مرضی لکھا ہوا ہے۔ بس اسی سے بہت سے لوگوں کو تکلیف ہے۔ جتنی مرتبہ اس کا مطلب سمجھاؤ، اتنی مرتبہ گالیاں پڑتی ہیں۔ پھر پوچھتے ہیں کہ اور کتنی آزادی چاہیے، کہتے ہیں ہم عورتوں کی بہت عزت کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اچھی منافقت ہے۔ بات کرنے کی تمیز نہیں ہے، اور انتہائی بے ہودہ الفاظ سے نوازا جاتا ہے۔

 باہر نکلیں تو بھی کسی طور ہراس ہونے سے محفوط نہیں ور پھر"عورتوں کے اصل مسائل یہ ہیں" کمنٹ کرنے والے مرد ہر طرف نظر آتے ہیں۔ ایک صاحب نے تو عورت مارچ ملتان 2021 کے مطالبات کی پوسٹ پر یہ بھی لکھ دیا کہ یہ مطالبات سنتا کون ہے، memes  ہی بننی ہیں۔ جب ہماری تکالیف، ہمارے مسائل، ہماری ضروریات کو memes سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جائے گا تو پھر بہتری کیسے آئے گی۔ اور مزے کی بات یہ کہ اس منشور میں زیادہ تر باتیں ہر انسان کی بہتری کے لیے کی گئی ہیں، کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ کم سے کم اجرت صرف عورتوں کی بڑھائی جائے۔

اس پدرسری نظام کے خلاف بات کرنا اپنے آپ میں بہت بڑی جنگ ہے۔ ہم ہر لمحے یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ اپنے گھروں میں، تعلیمی اداروں میں، بازاروں میں، سڑکوں پر، کام کی جگہوں پر، کورٹ کچہری میں، پارلیمان میں، کھیتوں کھلیانوں میں، سنگلاخ پہاڑوں میں، سر سبز کھیتیوں میں۔۔۔ نیز کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں یہ جنگ لڑے بغیر گزارہ ہو۔ یہ جدو جہد ایک دن کی نہیں ہے۔

سال بھر ان مارچز کی منتظمین اور شرکاء پسے ہوئے طبقے کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں۔ بس مسئلہ صرف اتنا ہے کہ تعصب کی عینک پہن کر اسے دیکھنے والے سال بھر کی کوششوں کو نہیں دیکھنا چاہتے۔ دنیا بھر میں جتنی بھی تحریکیں ہیں ان میں بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ تنقید اپنی جگہ مگر گالی اور بد زبانی کی اجازت نہیں دیں گے ہم۔ اس سال کوشش کریں کہ صرف فیس بک اور ٹویٹر پر لوگوں کے تبصرے پڑھنے کے بجائے خود بھی آ کر اس مارچ میں شرکت کریں اور پلے کارڈز پڑھیں، شاید آپ کو سمجھ آئے کہ ہم کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔