عوامی جہموریہ کانگو میں انسانی بحران کی کیفیت
1 نومبر 2008یورپی سفارت کار کانگو میں حکومت اور باغیوں کے مابین تنازعہ کے حل کے لئے کوشاں ہیں۔ کانگو اور روانڈا کے صدور سے ملاقات کے بعد یورپی یونین کے ترقیاتی اور امدادی امورکے کمشنر لوئی مشیل نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ کانگو کے صدر جوزف کابیلا اور روانڈا کے صدر پال کا گامے نے اقوام متحدہ کے تجویز کردہ ہنگامی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔
جمہوریہ کانگو میں باغیوں اور حکومتی فورسزز کے مابین جاری لڑائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بحرانی صورتحال کے حل کے لیے فرانسیسی وزیر خارجہ برنارڈ کوشنیئراور برطانوی خارجہ سیکریٹری ڈیوڈ ملی بینڈ کانگو میں افریقی رہنماؤں سے ملاقات کے لیے موجود ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ روانڈا کے سرحدی شہر گوما کا بھی دورہ کریں گے۔
واضح رہے کہ حکومت اور باغیوں کے مابین لڑائی کے نتیجےمیں پیدا ہونے والی بحرانی صورتحال میں اب تک دو لاکھ سے زائد افراد گوما اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یواین ایچ سی آر کے مطابق اس کو ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن کے مطابق بحران کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے پچاس ہزار کیمپوں کو لوٹا گیا ہے اور بعض کو نذرِ آتش بھی کیا گیا۔
اس صورتحال میں برطانوی وزیر برائے افریقہ نے کہا ہے کہ اگر باغیوں اور حکومت کےمابین کمزور فائر بندی کا معاہدہ ناکام ہوتا ہے تو کانگو میں مزید امن فوجی بھیجے جا سکتے ہیں۔ دوسری طرف برطانوی وزیر اعظم گورڈن براون نے کہا ہے کہ اس تنازعہ کے حل کے لئے مذاکرات کا راستہ اختتار کرنا چاہئے۔
واضح رہے کہ کانگو میں باغیوں کے سربراہ جنرل نکونڈا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے نسلی قبیلے ٹوٹ سی کی حفاظت کر رہے ہیں، نکونڈا نے کانگو حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ ہوٹو قبیلے کے افراد کے ساتھ مل کر ایک مصنوبہ بندی کے تحت ٹوٹ سی نسل کے لوگوں کا قتل عام کر رہی ہے۔
دوسری طرف کانگو کی حکومت نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے روانڈا پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ کانگو میں ٹوٹ سی قبیلے کی عسکری مدد کر رہا ہے۔
باغی سربراہ جنرل نکونڈا اور کانگو حکومت میں رواں برس جنوری میں فائر بندی کا معاہد ہوا تھا تاہم نکونڈاکی باغی فوج نے اگست کے مہینے میں ایک مرتبہ پھر عسکری کارروائی کا آغاز کیا۔ کانگو کے موجودہ تنازعہ کی جڑیں سن انیس سو چورانوے میں روانڈا کے قتل عام سے جڑی ہوئی ہیں جس میں ہوٹو اور ٹوٹ سی قبائل کے مابین خوں ریز لڑائی کے نتیجے میں قریبا آٹھ لاکھ ٹوٹ سی اور اعتدال پسند ہوٹو ہلاک ہو ئے تھے۔