1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمرہ کر کے لوٹنے والے ہزاروں ترک شہری قرنطینہ میں

16 مارچ 2020

ترک حکومت نے سعودی عرب سے عمرے کے بعد لوٹنے والے ہزاروں ترک شہریوں کو قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کورونا وائرس کے نئے مریضوں کی تشخیص کے بعد ان زائرین کو دیگر افراد سے الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3ZWgS
عمرے کے بعد سعودی عرب سے لوٹنے والے ترک مسلم شہری قرنطینہ میں بھیجے جانے سے پہلے انقرہ میں اپنے لیے بسوں کے انتظار میںتصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Berkin

انقرہ حکومت کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم کی نشاندہی تقریباﹰ ایک درجن افراد میں ہوئی اور اس طرح کووڈ انیس نامی بیماری کے ترکی میں مریضوں کی تعداد اب اٹھارہ ہو گئی ہے۔ جن نئے مریضوں میں یہ وائرس پایا گیا ہے، ان میں سے سات افراد مختلف یورپی ممالک سے واپس ترکی لوٹے تھے۔ تین ترک باشندے اپنا امریکا کا سفر مکمل کر کے وطن پہنچے تھے جب کہ دو افراد عمرے کی ادائیگی کے بعد واپس آئے تھے۔

سعودی عرب سے لوٹنے والے زائرین کے تعداد تقریباﹰ دس ہزار بتائی گئی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں ان افراد کو قرنطینہ میں رکھنے کے لیے ملکی دارالحکومت انقرہ اور صوبے قونیہ میں طالب علموں کے مختلف ہوسٹلوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

ترک وزیر صحت کے مطابق قرنطینہ میں رکھے گئے تمام مشتبہ افراد کو بتدریج ہسپتال منتقل کر دیا جائے گا۔ عمرے سے لوٹنے والے زائرین کو ہوائی اڈوں سے ہی مختلف بسوں میں سوار کرا کے محفوظ اور الگ تھلگ مقامات پر منتقل کر دیا گیا۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ حکومت کورونا وائرس کی نئی قسم سے پھیلنے والی وبا کو روکنے کی ہر ممکن کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کوششوں میں حکومت کی طرف سے عائد کردہ سفری پابندیوں اور بڑی تقریبات کی منسوخی بھی شامل ہیں۔

انقرہ حکومت نے سرکاری ملازمین کا بیرونی ممالک کے سفر پر جانا بھی محدود کر دیا ہے۔ تمام ثقافتی تقریبات اور ملکی اور بین الاقوامی سطح کے میلوں کا انعقاد بھی ملتوی کیا جا چکا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں ترک صدر ایردوآن نے اپنی بیرون ملک طے شدہ مصروفیات بھی منسوخ کر دی ہیں۔ مہاجرین کے بحران کے حوالے سے صدر ایردوآن نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے ساتھ تبادلہ خیال ایک ویڈیو کانفرنس میں کیا۔

ع ح / م م (اے ایف پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں