1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمرعبداللہ کی گرفتاری بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج

10 فروری 2020

کشمیر کے بیشتر سیاسی رہنما گزشتہ چھ ماہ سے قید میں ہیں جبکہ بھارتی حکومت سفارت کاروں کا ایک اور وفد کشمیر لے جانے کی تیاری میں ہے۔

https://p.dw.com/p/3XXPv
تصویر: picture-alliance/epa/F. Khan

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزير اعلی عمر عبداللہ کی بہن سارہ عبداللہ پائلٹ نے اپنے بھائی کی گزشتہ چھ ماہ سے حراست کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ اس سے متعلق سپریم کورٹ میں داخل کی گئی درخواست میں عمر عبداللہ کی حراست کو آزادی اظہار کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا گيا ہے کہ حکومت کے یہ اقدامات "تمام سیاسی حریفوں کو دبانے کی مستقل اور ہم آہنگ کوششوں کا حصہ ہیں۔"

جموں کشمیر کے تین سابق وزراء اعلی، فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت متعدد سیاسی رہنما پانچ اگست سے حراست میں تھے لیکن چھ ماہ کی مدت سے چند گنھٹے قبل حکومت نےگزشتہ ہفتے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت باقاعدہ گرفتار کر لیا ہے۔ اس کے تحت عدالت میں ان پر مقدمہ چلائے بغیر ہی انہیں چھ ماہ تک قید میں رکھا جا سکتا ہے۔

حکومت کے اس فیصلے کو عدالت عظمی میں چیلنج کرتے ہوئے کہا گيا ہے، "اس حکم سے حکومتی پالیسی اور بھارتی ریاست میں کوئي فرق نہیں بچتا ہے، جس کے تحت کسی بھی حال میں حکومت سے مخالفت کو ملک کے لیے خطرہ بتایا جاتا ہے۔ یہ پوری طرح سے جمہوری اقدار اور جمہوری طرز کی سیاست کے منافی ہے اور اس سے بھارتی آئین پامال ہوتا ہے۔"

حکومت کا کہنا ہے کہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر پی ایس اے لگانے کی وجہ ان کے متنازعہ اور اشتعمال انگیز بیانات ہیں جن سے کشمیر میں امن و امان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ حکومت نے اس سلسلے میں جو مختلف وجوہات پیش کی ہیں وہ بھارتی میڈیا میں بحث کا موضوع ہیں۔ لیکن سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گيا ہے کہ ان کے تمام بیانات کے ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ عمر عبداللہ نے مہاتما گاندھی کے طرز پر ہمیشہ امن برقرار رکھنے اور تعاون جاری رکھنے کی بات کی ہے جس سے امن امان کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

Kaschmir | Polizei | Sicherheitskräfte
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan

بھارت نےگزشتہ برس پانچ اگست کو ریاست جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئينی اختیارت ختم کرتے ہوئے اس کا ریاست کا درجہ ختم کر دیا اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیاتھا۔ اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے حکومت نے فون، انٹرنیٹ اور موبائل فون بند کرتے ہوئے کرفیو جیسی بندشیں عائد کی تھیں۔ بی جے پی کے علاوہ تمام سیاسی رہنماؤں، سماجی کارکنان اور سرکردہ شخصیات کو گرفتار کر لیا گيا تھا۔ حال ہی میں حکومت نے فون اور انٹرینٹ جیسی بعض بندشوں میں تھوڑی نرمی کا اعلان کیا ہے۔

اس دوران حکومت نے غیرملکی سفارت کاروں پر مشتمل ایک اور وفد کو جموں کشمیر بھیجنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

بھارتی میڈیا میں خبروں کے مطابق حکومت اس وفد کو اسی ہفتے کشمیر بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پندرہ سفارت کاروں پر مشتمل ایک وفد نے گزشتہ ماہ  کشمیر کا دورہ کیا تھا۔ اس میں امریکی سفارتکار کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش، فیجی اور مالدیپ سمیت کئی سفارت کار شامل تھے لیکن مشرقی وسطی اور یوروپی یونین کے سفارتکاروں نے یہ کہہ کر جانے سے منع کر دیا تھا کہ انہیں کشمیر پہنچ کر آزادانہ طور پر عوام سے ملنے کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی تھی۔       

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید