1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کی ’پارٹنر شپ‘ کے خلاف سیاسی حکمت عملی کے اثرات

17 اپریل 2022

عمران خان کے سیاسی مقاصد میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی ’پارٹنرشپ‘ توڑنا شامل تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس سیاسی پارٹنر شپ کو توڑنے میں ان کی ”جدوجہد“ سے زیادہ کردار ’امپائر کی انگلی‘ نے ادا کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/49zrm
Pakistan Premierminister Imran Khan
تصویر: Saiyna Bashir/REUTERS

”یہ جو تیس سال سے چور اور ڈاکو قابض تھے، یہ زردای اور نواز شریف کی پارٹیوں نے باریاں لگا رکھی تھیں، تیس سال سے ملک لوٹنے والوں کے خلاف میں جہاد کرنے نکلا ہوں" جیسے بہت سے جملے عمران خان کا ٹریڈ مارک بن چکے ہیں۔ خان صاحب اس یقین کے ساتھ یہ جملے دہراتے ہیں جیسے کوئی انہونی ہو گئی ہو حالانکہ نوے کی دہائی میں امپائر نے یکسوئی کے ساتھ کوئی فریضہ سر انجام دیا تو وہ یہی تھا۔ تب خان صاحب کی ٹیم ابھی 'زیر تعمیر‘ تھی سو کھیل کا اسلوب ذرا مختلف تھا، امپائر کی ٹیم پاکستان مسلم لیگ بمقابلہ 'سیکورٹی رسک‘ پاکستان پیپلز پارٹی۔ 

1988 میں تمام تر کوششوں کے باوجود امپائر کے لیے بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنا ممکن نہ رہا تو پہلے صدر اسحاق خان اور صاحبزادہ یعقوب علی خان  کا پہرہ بٹھایا گیا اور دو سال بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ انگلی کھڑی کر دی گئی۔ امپائر نے بڑی امیدوں کے ساتھ 1990 میں اپنا دست شفقت نواز شریف پر رکھا جو 1993 تک انگلی میں بدل چکا تھا۔ اسمبلی توڑ دی گئی اور نئی حکومت محترمہ بے نظیر بھٹو کی بنی جو 1996 میں چلتی کر دی گئی۔ اس کے بعد نواز شریف کو ملنے والی دوتہائی اکثریت کا انجام امپائر کے ”میرے عزیر ہم وطنو‘‘ سے ہوا۔ 

نوے کی دہائی میں بطور حکمران امپائر کے 'کھلاڑی‘ میاں نواز شریف تھے جب کہ نظریاتی سرحدوں پر فیلڈنگ کی ذمہ داری مذہبی جماعتوں نے اٹھا رکھی تھی۔ اس دوران نواز شریف کا سب سے بڑا جرم ”ضیاالحق کا مشن پورا کر کے رہوں گا" سے ”ڈکٹیشن نہیں لوں گا" ثابت ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی تو پہلے دن سے ناقابل اعتبار تھی۔ سو امپائر جنرل حمید گل کی کوچنگ میں ایک نئی ٹیم کی تیاری کا ڈول ڈال چکے تھے۔ 

1995 میں ہیرالڈ کے لیے عمران خان اور ان کے سرپرست جنرل حمید گل کا انٹرویو کرنے والے سینئر صحافی ضیغم خان اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”ضیاالحق کے طویل مارشل لا کے بعد پہلی مرتبہ جمہوری عمل شروع ہوا تھا جسے غیر جمہوری قوتیں پیچھے دھکیلنا چاہتی تھی۔ پاکستان کے تعلیم یافتہ شہری طبقے کو جمہوریت سے ہمیشہ ایک بیر رہا۔ وہ سیاستدانوں پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھے۔"

حسین حقانی کی کتاب 'پاکستان فوج اور ملا ‘ کے درمیان اپنے موضوع پر ایک عمدہ دستاویز سمجھی جاتی ہے۔ ان کے بقول نوے کی دہائی میں بے نظیر کا جرم ”پاکستانی عوام کو مذہب کے بجائے جمہوریت کے رشتے میں باندھنے کی کوشش" کرنا تھا۔

2008 سے پاکستان کی جمہوری ثقافت میں نئی اننگز کا آغاز ہوا۔ 2010  میں پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر اٹھارویں ترمیم منظور کروائی۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مسلم لیگ بھی اس 'گناہ‘ میں برابر کی شریک تھی۔ 66 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے سلجھے ہوئے سیاسی رویے کے حوالے سے ضیغم خان کہتے ہیں، ”ہم نے 1973 میں آئین تو بنا لیا لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ کھیل کے اصول کیا ہوں گے۔ اصول و ضوابط طے نہ ہونے کا اثر نوے کی دہائی میں ظاہر ہوا جب دونوں جماعتیں ذاتی دشمنوں کی طرح آپس میں لڑ رہی تھیں۔ میثاقِ جمہوریت نے کھیل کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔ دس سال تک پاکستان میں مختلف طرح کی سیاست ہوئی۔ ایسے میں عمران خان سامنے آئے جو اسٹیبلشمنٹ کا 1996 سے خواب تھا، ایک ایسا بندہ جو ہمارا اپنا ہو۔"

 سرحدوں کے محافظ 2011 میں دفاع پاکستان کونسل کی چھتری تلے اکٹھے ہوئے۔ اسی برس 'اپنا بندہ‘ لاہور کے جلسے سے پوری طرح لانچ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان تحریک انصاف سونامی میں ڈھل گئی۔ اقتدار میں آنے سے پہلے دھرنوں اور جلسے جلوسوں کے ذریعے سونامی امپائر کے حق میں بھرپور قسم کے پریشر گروپ کا کردار ادا کرتی رہی۔ 

فرائیڈے ٹائمز میں نجم سیٹھی نے 2014 کے دوران زیرو یا ہیرو کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا، ”عمران خان کا 'خلائی مخلوق‘ کے ساتھ تعلق تحقیق کا ایک اور دلچسپ موضوع ہے۔ جب بھی وہ سویلین حکومتوں کے ساتھ پنجہ آزما ہوئے عمران خان نے ہمیشہ عوامی جذبات کو ان کے حق میں استوار کیا۔" نجم سیٹھی نے چند مثالیں پیش کرتے ہوئے رحمان ملک کی آئی ایس آئی کو اپنے ماتحت لانے کی کوشش، کیری لوگر بل، اسامہ بن لادن کی ہلاکت، میمو گیٹ، اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے 'ریاست کے اندر ریاست‘ کے بیان وغیرہ کی مثالیں پیش کی ہیں۔  

انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک اسٹڈیز کے سربراہ اور سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو سے کہتے ہیں، ”دراصل کسی بڑی سیاسی قوت کے لیے ایک حقیقی خلا موجود تھا جسے پی ٹی آئی نے پُر کیا۔" وہ امپائر سے زیادہ کردار ”عمران خان کی کرشماتی شخصیت، موروثی سیاست اور کرپشن کے خلاف ان کے نعروں کو سمجھتے ہیں۔"

کسی بھی پریشر گروپ کی طرح عمران خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج عوام کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اکٹھا کرنا تھا۔ طالبان کے حمایتی عمران خان کے لیے یہ مشکل احمد اعجاز کے بقول 'دہشت گردی کی لہر‘ نے آسان کر دی۔ پی ٹی وی الیکشن سیل کے انچارج احمد اعجاز ڈی بلیو اردو سے بات کرتے ہوئے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہیں، ”اسٹیبلشمنٹ الیکٹیبلز کو تو کسی جماعت کی طرف دھکیل سکتی ہے لیکن لوگوں کو گھروں سے نکال کر جلسے میں نہیں پہنچا سکتی۔ دراصل دہشت گردی کی لہر بری طرح دوسری سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنا رہی تھی۔ یہاں تک کہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت جمعیت علمائے اسلام بھی ان کے حملے سے محفوظ نہ رہ سکی۔ بازار اور تفریحی پارک بند ہو کر رہ گئے تھے۔ یہاں تک کہ جشن بہاراں کے ثقافتی میلے بھی تعطل کا شکار ہو چکے تھے۔ ان حالات میں نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ تفریحی سرگرمیوں کا فقدان تھا۔ پی ٹی آئی کے جلسے میں جا کر وہ ناچ گانے سے لطف اندوز ہو سکتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی زندگی محفوظ تھی۔" یہ نوجوان عمران خان کا فین کلب بنتا گیا۔ کیوں کہ یہ نوجوان شہری علاقوں سے تعلق رکھتے تھے اس لیے سوشل میڈیا کا بہتر استعمال تحریک انصاف کی پروپیگنڈہ مہم اور ٹرینڈ سازی میں سودمند ثابت ہوا۔ 

لیکن عمران خان کا فین کلب کبھی بھی سیاسی ورکر نہ بن سکا۔ سیاسی ورکر جمہوریت اور دلیل پر یقین رکھتا ہے جبکہ کپتان کے پرستار اپنے لیڈر کی طرح آمرانہ مزاج اور زعم پارسائی کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں۔  

ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار سجاد اظہر نوجوانوں کے ایسے رویے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”ثقافتی گہرائی یا تنقیدی نگاہ سے عاری نوجوان نسل نے بس میڈیا دیکھا اور میڈیا پر کپتان ہی کپتان تھا۔ یہ شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والی وہ نسل تھی جن کے ماں باپ رزق کی دوڑ دھوپ میں ان کی تربیت کے لیے وقت نہ نکال سکے۔ ایک ہجوم کی شکل میں یہ نوجوان سوشل میڈیا پر چڑھ دوڑے۔ پاکستان تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کو ٹول کے طور پر کمال مہارت سے استعمال کیا۔"

نظریاتی سرحدوں کے محافظ اور اسٹیبلشمنٹ کا سب سے موثر گروہ دفاع پاکستان کونسل میں اکھٹا ہونے کے باوجود رنگ نہ جما سکا کیونکہ دائیں بازو کا نیا ووٹر ثقافتی سطح پر ویسا رجعت پسند نہیں تھا۔ وہ ہاتھ میں تسبیح پکڑنے کے باوجود جلسے میں تھرکتے ہوئے نغموں پر ٹھمکے لگانا چاہتا تھا۔ پی ٹی آئی نے یہ سہولت وافر مقدار میں مہیا کی۔ مقامی سیاست میں متحرک مذہبی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کے بہت سے سیاست دان عمران خان کو پیارے ہو گئے۔ اس سلسلے میں 'پاسبان‘ کا ذکر ایک الگ داستان ہے۔

میں صدمے سے دوچار ہونے کے باوجود عمران خان پریشر گروپ کا کردار ادا کرتے رہے۔ نواز شریف کی عدلیہ کے ذریعے رخصتی کے باوجود ان کا راستہ صاف نہیں تھا۔ بہرحال 25 جولائی 2018 کو عمران خان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی 'پارٹنر شپ‘ توڑنے میں کامیاب رہے جس کا جشن وتعز من تشاء و تزل من تشاء کی ٹویٹ سے منایا گیا۔ 

آج یہ سوال بے سود ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف پارلیمانی سیاست میں اتنی بڑی قوت بن کر نہ ابھرتی تو دوجماعتی سیاسی عمل کہاں تک پہنچا ہوتا؟ البتہ اس سوال کی اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتی جائے گی کہ پی ٹی آئی نے ہمارے سیاسی کلچر کو کیا دیا؟

ضیغم خان کہتے ہیں، ”اگر عمران خان حقیقی مڈل کلاس سپرٹ کی نمائندگی کرتے جو قانون کی حکمرانی، مضبوط معیشت اور بہتر طرز حکومت چاہتے ہیں تو اس سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دو جماعتوں پر دباؤ بڑھتا اور وہ معاملات بہتر ہو سکتے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اپنے کسی دعوے کو سچ نہ کر سکے اور بدترین طرز حکمرانی کی مثال بن گئے۔" 

پاکستان سٹڈی سرکل جامعہ کراچی کے سابق صدر، پچیس سے زائد کتابوں کے مصنف اور پولیٹیکل سائنس کے معروف نام ڈاکٹر جعفر احمد کا دکھ ذرا مختلف ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”پی ٹی آئی نے بدزبانی کے جس کلچر کو فروغ دیا وہ افسوس ناک ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات ایک بہت بڑی تعداد کا اسے قبول کرنا ہے۔" 

1995 میں کپتان نے ضیغم خان سے کہا تھا، ”جو شخص بھٹو کو پسند کرتا ہے وہ غدار ہے۔" چھبیس برس بعد بھی وہ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں۔ خان صاحب کو دیکھ کر تو نظریہ ارتقاء سے بھی ایمان اٹھنے لگتا ہے۔ 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید