عقل کو حیراں کر دینے والے شہد کے چھتے کی تعمیر
17 جولائی 2013اس شہد کے چھتے کے ویفر بسکٹس کی مانند چھ کونے ہوتے ہیں جو اس چھتے کو مضبوطی فراہم کرتے ہیں جبکہ اس کا اندرونی حصہ موم کی مانند ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس چھتے میں با آسانی شہد جمع ہوتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہد کی مکھیاں ایسا کرتی کیسے ہیں؟
اس حوالے سے کارڈف یونیورسٹی کے پروفیسر’’بھوشن کری ہالو‘‘ کی سربراہی میں سائنس دانوں نے ایک نیا مطالعہ کیا جس سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ خلیے پہلے دائرے کی شکل میں ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ موم کے بہاؤ اور مکھیوں کے حرارت فراہم کرنے سے پگھل کر چھ کونیے بن جاتے ہیں۔
انتہائی تندی سے یہ شہد کی مکھیاں چھتے میں موجود نالیوں میں اپنا کام کرتی ہیں۔ وہ جسم سے ایسے ٹکڑے خارج کرتی ہیں جو بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، مکھیاں ان ٹکڑوں کو گوندھتی ہیں اور ہلکی ضرب سے گوندھے ہوئے مادے کو نالیوں میں ڈال دیتی ہیں۔ اس کے بعد کام کرنے والی مکھیاں 45 ڈگری سینٹی گریڈ حرارت فراہم کرتی ہیں، جس سے یہ موم پگھل کر لیس دار مادے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
اس عمل کے دوران خلیوں کی دیواریں مسلسل پھیلتی رہتی ہیں اور آخرکار یہ خلیے پگھل کر سیدھے ہو جاتے ہیں اور چھ کونیے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
اگرچہ سائنس دان طبیعات اور ریاضی کی مدد سے شہد کے چھتے بنانے کی پہیلی کو سلجھا چکے ہیں، مگر پھر بھی وہ اس عمل کے لیے مکھیوں کی تعریف کرتے ہیں۔
برطانوی جریدے ’رائل سوسائٹی انٹر فیس‘ میں شائع ہونے والے اس مطالعے کے مطابق، ’’ہم نہ تو نظر انداز کر سکتے ہیں اور نہ ہی حیران ہوئے بغیر رہ سکتے ہیں کہ کس مہارت سے شہد کی مکھیاں موم کو گوندھتی، حرارت مہیا کرتی اور اسے ضرورت کے مطابق پتلا کرتی ہیں۔‘‘