1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عفرین آپریشن، ہفتہ ترک فوج کے لیے خونریز ترین دن

4 فروری 2018

شامی علاقے عفرین میں ترک افواج اور کرد جنگجوؤں کے مابین ہفتے کے دن ہوئی تازہ لڑائی میں سات ترک سپاہی مارے گئے ہیں۔ اب تک اس آپریشن میں کسی ایک دن میں ترک افواج کا یہ سب سے بڑٓا جانی نقصان ہے۔

https://p.dw.com/p/2s62N
Türkei Panzer werden zur Grenze mit Syrien transportiert
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے مقامی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ تین فروری بروز ہفتہ شامی علاقے عفرین میں ہوئی تازہ لڑائی میں سات ترک فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔ ترک فوج نے ہمسایہ ملک شام کے علاقے عفرین میں فعال کرد باغیوں کے خلاف یہ عسکری مہم بیس جنوری کو شروع کی تھی اور اب تک کسی ایک دن میں ترک فوجیوں کی ہلاکتوں کا یہ سب سے بڑا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔

عراق میں ترک فوجی کارروائی، انچاس کرد جنگجو ہلاک

امریکا کرد جنگجوؤں کو مزید اسلحہ نہیں دے گا، ترک نیوز ادارے

ترکی کا عفرین میں ڈھائی سو سے زائد جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ

حلب ’کہ شہر تھا عالم میں روزگار‘

کرد نیوز پورٹل Raudaw نے ترک فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہفتے کے دن عفرین میں ترک فوجیوں کی یہ ہلاکتیں تین مختلف واقعات کے دوران رونما ہوئیں۔ بتایا گیا ہے کہ پانچ فوجی ایک ٹینک پر ہوئے حملے میں لقمہ اجل بنے جبکہ دو سپاہی دو مختلف مقامات پر ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک ہوئے۔

تاہم ان حملوں کے بارے میں زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ گزشتہ ماہ بیس جنوری کو شروع ہوئی اس کارروائی کے نتیجے میں یوں اب تک ہلاک ہونے والے ترک فوجیوں کی تعداد چودہ ہو گئی ہے۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ ملکی خومختاری اور سالمیت کی خاطر شامی کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ انقرہ حکومت اس گروہ کو کالعدم کردستان ورکرز پارٹی سے وابستہ قرار دیتی ہے، جو 80 کی دہائی سے ترکی میں باغیانہ تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شامی علاقے عفرین میں پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جی) کا قبضہ ہے۔ یہ کرد ملیشیا شامی خانہ جنگی میں شامل متعدد اعتدال پسند گروہوں کے علاوہ امریکا کی بھی حمایت یافتہ قرار دی جاتی ہے۔ یہ گروہ شام میں انتہا پسند گروہ داعش کے خلاف کارروائیاں سر انجام دیتا رہا ہے۔

ترکی کو شام میں اس طرح کی فوجی کارروائی پر تنقید کا سامنا بھی ہے۔ تاہم صدر ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا کہنا ہے کہ ترکی سے متصل شامی علاقوں کو ’دہشت گردوں‘ سے مکمل صاف کرنے تک یہ کارروائی جاری رہے گی۔ ترک حکومت کی اس کارروائی کا مقصد کرد باغیوں کو ترک سرحد سے تیس کلو میٹر دور دھکیلنا ہے تاکہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر ایک سکیورٹی زون قیام کیا جا سکے۔

کردستان ورکرز پارٹی سن انیس سو اسی کی دہائی سے جنوب مشرقی ترکی میں آزادی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس جنگجو گروہ اور سکیورٹی فورسز کے مابین ہونے والی جھڑپوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کے باعث کم ازکم چالیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ترکی کے علاوہ یورپی یونین اور امریکا نے بھی کردستان ورکرز پارٹی کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔