1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عظیم کائناتی جھرمٹ، اب کائنات کیسے سمجھ آئے؟

25 مئی 2018

زیرمشاہدہ کائنات کے نوے فیصد فاصلے پر 14 کہکشاؤں کے ایک جھرمٹ کے مطالعے نے کائنات کی ابتدا سے متعلق انسانی سوچ کو مشکلات کا شکار کر دیا ہے، کیوں کہ اس سے قبل ابتدائی کائنات سے متعلق لگائے گئے اندازے کچھ اور بتا رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/2yKX7
Flash-Galerie Galaxie UDFy-38135539 (NASA, ESA, G. Illingworth (UCO/Lick Observatory and University of California, Santa Cruz) and the HUDF09 Team)
تصویر: NASA, ESA, G. Illingworth (UCO/Lick Observatory and University of California, Santa Cruz) and the HUDF09 Team

انتہائی فاصلے پر موجود اس جھرمٹ کا مطالعہ کر کے کائنات کی ابتدا سے متعلق معلومات کی توقع کی جا رہی ہے۔ محققین نے بتایا کہ کہشکشانی تصادم زمین سے قریب ساڑھے بارہ ارب نوری سال کے فاصلے پر ہوا اور یہ کائنات کی ابتدا کے فقط ایک ارب سال بعد کی بات ہے۔ کائنات 13 اعشاریہ سات ارب سال پرانی ہے۔ کہکشاؤں کا یہ جھرمٹ آج کی کائنات میں کسی ایک مقام پر ایسا سب سے بڑا جھرمٹ ہے۔

دور کی کہکشاں پر آکسیجن مل گئی

نئے دور افتادہ ترین نظام شمسی کی دریافت

یورینس سیارے کی دریافت شدہ بُو کی شناخت مکمل

سائنس دانوں کے مطابق 14 کہکشاؤں کا یہ جھرمٹ پہلی مرتبہ یوں مشاہدہ کیا گیا ہے اور یہ ملکی وے کہکشاں (ہماری کہکشاں جس میں نظام شمسی اور زمین موجود ہے) سے فقط چار گنا بڑے علاقے پر پھیلا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موجودہ فلکیاتی اندازوں کے مطابق کائنات کی ابتدا کے اتنا جلدی ایس پی ٹی 2349ْ  کہلانے والا یہ جھرمٹ تخلیق نہیں پانا چاہیے تھا۔ محققین کے مطابق موجودہ طبعیاتی نظریات کے مطابق اس انداز کا جھرمٹ کئی ارب سال بعد نمودار ہونا چاہیے تھا۔

کینیڈیا کی ڈالہوئس یونیورسٹی سے وابستہ ماہر فلکیات اسکاٹ چمپمن کے مطابق، ’’ہم اس کے اثرات کا سوچ کر پریشان ہیں۔ عمومی سوچ یہی تھی کہ ایسا جھرمٹ کائنات کی ابتدا کے بہت عرصے بعد تخلیق پایا ہو گا۔ کیوں کہ ہمارے خیال کے مطابق کہکشاؤں کا جھرمٹ بننے میں طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ مگر ایس پی ٹی 2349 نے ہمیں بتایا کہ نظریات کے برعکس ایسا بے حد جلدی ہو سکتا ہے۔‘‘

کہکشاؤں کا جھرمٹ، جس میں ہزاروں کہکشاؤں تک ہو سکتی ہیں اور ان کی کمیت ہمارے سورج سے کوآرڈریلین (کھربوں کھربوں) گنا زیادہ ہو سکتی ہے اور یہ ڈارک میٹر جیسے مواد کی وجہ سے ایک دوسرے سے بندھی ہوتی ہیں، جب کہ ان کے مرکز میں بھی انتہائی بڑے بلیک ہولز موجود ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے انتہائی تیز رفتاری سے حرکت کرنے والی ان کہکشاؤں کے ستارے بھی مرکز گریز قوت کے باوجود کہکشاں سے بندھے رہتے ہیں۔

سائنس دانوں کے مطابق ایس پی ٹی 2349 میں سیاروں کی تخلیق کی رفتار ملکی وے کہکشاں میں ستاروں کی تخلیق سے قریب ایک ہزار گنا تیز ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ انتہائی دور کی کہکشاؤں کے مشاہدے کا مطلب ماضی میں جھانکنا ہوتا ہے، یعنی ان کہکشاؤں سے زمین تک آنے والی روشنی نے چوں کے اربوں سال قبل اپنے سفر کا آغاز کیا تھا، اس لیے ان کہکشاؤں کا دیکھنا اربوں برس قبل کے لمحات کے مشاہدہ کرنے سے عبارت ہے۔

ع ت / ع الف