1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عسکریت پسندوں کی ہلاکتیں: کشمیری جماعتوں کا منقسم ردعمل

عبدالستار، اسلام آباد
8 مئی 2020

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی ہلاکت پر کشمیری تنظیمیں منقسم ہیں، کشمیری قوم پرست جماعتیں عسکری کارروائیوں کو ایک خطرناک رجحان قرار دے رہی ہیں جبکہ پاکستان سے الحاق کے حامی اسے ردعمل قرار دے رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3bwQW
BG Pressebilder Bildband „Fotos für die Pressefreiheit 2020“ von Reporter ohne Grenzen | Dar Yasin Indien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کافی عرصے سے کشیدگی چل رہی ہے جو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے والے قانون کے نفاذ کے بعد شروع ہوئی، جس میں شدت بدھ کو اس وقت آئی جب بھارتی فوج نے ریاض نائیکو نامی ایک کشمیری عسکریت پسند کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ نائیکو کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ حزب المجاہدین کا کمانڈر تھا۔ ساوتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق اس برس بھارت کے زیر اتنظام کشمیر میں قریب پچاس مبینہ عسکریت پسند اور بیس بھارتی فوجی مختلف واقعات میں مارے گئے ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے نئی دہلی پر الزام لگایا ہے کہ وہ جعلی پولیس مقابلوں میں کمشیری نوجوانوں کو قتل کر رہا ہے جب کہ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان متنازعہ علاقے میں دخل اندازی کر رہا ہے۔ اسلام آباد حکومت ان دعووں کی نفی کرتی ہے۔ قبل ازیں ہفتہ دو مئی کو ایک بھارتی کرنل اور ایک میجر سمیت پانچ سیکیورٹی اہل کار عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارے گئے تھے۔

جرمنی: مبینہ بھارتی جاسوس کے خلاف مقدمے کی سماعت اگست میں

بھارت اب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقوں کا بھی موسم بتانے لگا

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والی مذہبی سیاسی تنظیم جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کا احتجاج بھارتی ظلم وستم کا رد عمل ہے۔ پارٹی کے سیکرٹری جنرل راجہ فاضل تبسم کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت کرتی ہے اور بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت کی پر زور مذمت کرتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارتی فوج نے ریاض نائیکو سمیت کئی کشمیری نوجوانوں کو قتل کیا ہے، ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ یہ حق انہیں اقوام متحدہ نے دیا ہے۔ لیکن بھارت نے نہ صرف اس حق کو چھینا ہے بلکہ گزشتہ اگست سے وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بھی بدل دیا ہے اور کشمیریوں کو بند کیا ہوا ہے۔‘‘

انہوں نے سوال کیا کہ اگرکوئی بھارتی فوجی کسی کشمیری کی ماں یا بہن کی بے حرمتی کرے، تو اس گھر کے نوجوان کیا کریں گے۔ ''یقینا ایسی صورت میں وہ گھر میں تو نہیں بیٹھیں گے اور جدوجہد کا راستہ اپنائیں گے۔ بھارت ان کے جلسے جلوس اور احتجاج کو بھی طاقت کے بل بوتے پر دبا رہا ہے۔ تو ایسے میں ان کے پاس پھر کیا راستہ رہے جا تا ہے۔‘‘

مذہبی جماعتوں کے برعکس کشمیری قوم پرست جماعتیں عسکریت پسندی کی اس لہر پر تشویش کا شکار ہیں اور اس کو کشمیریوں کے لیے تباہ کن سمجھتی ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بائیں بازو کی کشمیری جماعت پیپلز نیشل پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار راجہ کا کہنا ہے کہ مذہبی عسکریت پسندی نے پہلے بھی کشمیریوں کی جدوجہد کو نقصان پہنچایا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ایسا لگتا ہے کہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کی ایک بار پھر سر پرستی کی جا رہی ہے، جس سے ماضی میں پہلے کشمیریوں کو مذہبی اور بعد میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کیا گیا۔ کشمیر میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور بدھ مت کے ماننے والے رہتے ہیں، جو سب کشمیری ہیں اور ان کی آزادی قومی حقوق کے لیے ہے کسی مذہبی ریاست کے لیے نہیں ہے۔‘‘

بھارت:کشمیر کی معیشت بھی کورونا لاک ڈاؤن سے متاثر

ان کا مذید کہنا تھا کہ کشمیری قوم پرست جماعتوں کو جہادی تنظیمیں کی  سرگرمیاں پر شدید تشویش ہے۔ ''ہمارے آزادکشمیر میں بھی اور خیبرپختونخواہ میں بھی جہادی تنظیمیوں نے کشمیر کے نام پر چندہ لینا شروع کر دیا ہے، جس پر ہمیں شدید تشویش ہے کیونکہ ان جہادیوں کی وجہ سے ہماری قومی آزادی کی تحریک ماضی میں بھی بدنام ہوئی ہے اور اب بھی ہوگی۔ اس سے کشمیریوں کو نہیں بلکہ بھارت کو فائدہ ہوگا، جو ہماری تحریک کو دہشت گردی اور مذہبی عسکریت پسندی سے جوڑ دے گا۔‘‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والی قوم پرست جماعت جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے رفیق ڈارکا کہنا ہے کہ بھارت کی جابرانہ پالیسیاں کشمیریوں کو عسکریت پسندی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ ''لیکن ہماری جماعت پر امن جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ ہم کسی عسکریت پسندی کی حمایت نہیں کرتے کیونکہ ہمارے خیال میں جہادی سرگرمیاں اور ملٹری طاقت ہمیں تباہی کے دھانے پر لے جائیں گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کے تینوں اسٹیک ہولڈرز کو اس مسئلے پر مذاکرات کرنے چاہیں اور بین الاقوامی برادری کو نئی دہلی پر اس کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔‘‘