1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عروج آفتاب جدید موسیقی کا بڑا نام

10 اپریل 2022

سن 2005 میں امریکہ جانے سے پہلے عروج آفتاب نے زندگی کے دھوپ چھاؤں لاہور میں رہ کر دیکھی۔ موسیقی کی ابتدائی تربیت بھی یہیں سے ہوئی۔ گریمی ایوارڈ ان کے ٹیلنٹ کا نتیجہ ہے۔ فاروق اعظم کا بلاگ

https://p.dw.com/p/49in7
USA Las Vegas | Grammy Awards | Arooj Aftab
عروج آفتاب گریمی اوارڈ کی تقریب میںتصویر: Chris Pizzello/AP Photo/picture alliance

دنیا کو عالمی گاؤں بنانے میں بنیادی کردار ٹیکنالوجی نے ادا کیا اور اس تبدیلی کی شاید سب سے بھاری قیمت مقامی ثقافتوں کو چکانا پڑی۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ مقامی ثقافتیں اپنے تحفظ کے لیے بھی ٹیکنالوجی (یوٹیوب وغیرہ) اور کلچر و ثقافت سے وابستہ ”معتبر عالمی اداروں" کی محتاج ٹھہری ہیں۔ یہ عالمی ادارے نہ صرف مقامی ثقافت کی اہمیت سے آگاہ ہیں بالکل فوقتاً فوقتاً اس کے فروغ کے لیے ٹھوس اقدامات بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال گریمی کی طرف سے ”بیسٹ گلوبل میوزک پرفامنس" ایوارڈ کا اجرا ہے۔

موسیقی کی دنیا میں سب سے باوقار سمجھے جانے والے گریمی ایوارڈز میں مقامی ثقافتوں کی نمائندگی کے لیے ماضی میں بیسٹ ٹریڈیشنل فوک البم اور بیسٹ ٹریڈیشنل ورلڈ میوزک البم جیسے ایوارڈز موجود رہے۔ 2021 میں مختلف کیٹیگریز کے ملاپ سے ”بیسٹ گلوبل میوزک پرفامنس" کا جنم ہوا جس کا مقصد عالمی سطح پر موسیقی کی ایسی پرفارمسنز کو سراہنا تھا جن کا خمیر ”غیر یورپی، مقامی روایات" سے اٹھا ہو۔ 64ویں گریمی ایوارڈ کی تقریب میں عروج آفتاب، انجلیک کڈجو اور برنا بوائے، فیمی کوٹی، یو-یو ما اور اینجلیک کڈجو اور وِزکیڈ فٹ ٹیمز اس کیٹیگری کے لیے نامزد امیدوار تھے جہاں پاکستانی نژاد امریکی گلوکارہ عروج آفتاب اپنے گانے ”محبت" کے لیے فاتح قرار پائیں۔

 عروج برکلے کالج آف میوزک سے میوزک پروڈکشن، انجنئیرنگ اور جاز کمپوزیشن میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ نیویارک منتقل ہو گئیں اور فلموں کے لیے چھوٹی موٹی اسائنمنٹس کرنے لگیں۔ 

2014 میں ریلیز ہونے والے البم ”برڈ انڈر واٹر" سے متوجہ کرنے والی عروج آفتاب کو اس وقت شہرت ملی جب باراک اوباما نے 2021 کی اپنی پسندیدہ گیتوں کی فہرست میں ان کا گیت ”محبت" شامل کیا۔

 جہاں تک پاکستانی شائقین موسیقی کا تعلق ہے تو عروج آفتاب کی آواز میں ایوارڈ ونر گیت ”محبت" ان کا دل نہ چھو سکا۔ اس کی بنیادی وجہ مہدی حسن کی لافانی آواز میں اس غزل کا ہمارے حافظے پر نقش ہونا ہے۔ بھلے وہ اوباما جیسے نامور شخص کی بہترین فہرست کا حصہ ہی کیوں نہ بن جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ عروج آفتاب جب بھی پہلے سے گائی ہوئی کسی چیز کو ہاتھ لگائیں گی تو ہندی، اردو شائقین کے لیے وہ بے رس آوازوں کے مجموعے کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ استاد بڑے غلام علی خاں کی ٹھمری اور مہدی حسن کی غزل کو کسی اور آواز میں برداشت کرنا یقیناً دشوار کام ہے۔  لیکن عروج آفتاب جس معاشرے میں ہیں وہاں فیوژن کی بہت مانگ ہے اور یقیناً اپنی کمپوزیشن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ مزید بہت نام پیدا کر سکتی ہیں۔

آئیے عروج آفتاب کے پانچ بہترین گیتوں کی فہرست پر نظر ڈالتے ہیں۔   

1. بولو نا

آنکھوں سے آنکھیں ملا کے بولو نا

جواب دو میرے سوال کا

پیار ہے کہ نہیں بولو نا

یہ عروج آفتاب کے دور طالب علمی کا گیت ہے جو کسی بھی نوجوان کے دل میں پھوٹتے محبت کے شوخ جذبوں سے لبریز ہے۔ انتہائی خوبصورت ردھمم اور سازوں کا نسبتاً کم استعمال بالکل ویسی ہی فضا تخلیق کرتا ہے جو کسی نوجوان کے دل میں ہوتی ہے۔ ذاتی طور پر مجھے عروج آفتاب کا یہ گیت سب سے زیادہ پسند آیا۔

2. لاسٹ نائٹ

مانگ لے بندے اپنے مولا سے تو

خالی گیا نہ کوئی ان کے در سے

 انگریزی میں شروع ہونے والا یہ گیت ابتدائی طور پر اپنے محبوب کی روایتی سی تعریف محسوس ہوتا ہے۔ اچانک گیت کی زبان بدلتی ہے اور اس کے ساتھ ہی فضا بھی۔ اب اردو زبان میں صوفیانہ رنگ کے بول گونجنے لگتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے محبوب دسترس میں نہیں جسے حاصل کرنے کے لیے مولا کا در کھٹکھٹانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ آخر میں پھر انگریزی زبان میں چاند جیسے محبوب کا ذکر ہے۔ اس گیت کی موسیقی انتہائی خوبصورت ہے۔   

USA Las Vegas | Grammy Awards | Arooj Aftab
تصویر: Steve Marcus/REUTERS

3. سانس لو

دل کے ٹکڑے ٹکڑے چن لو، سانس لو

اس ویراں جہاں میں کوئی نہیں پر تم خود تو ہو

سانس لو

اس گیت کو سنتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کے بول بھی عروج آفتاب نے خود لکھے ہوں گے۔ زندگی میں بہت سے لمحات میں دوسروں کا رویہ ہمیں بری طرح توڑ ڈالتا ہے۔ ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟ سانس لو ہمت ہارنے کے بجائے جینے کا رستہ دکھاتا ہے اور ایسا جیون جس میں دوسروں کی موجودگی سے بڑھ کر اپنا آپ اہم ہو۔ 

4. محبت

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے

تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

 بیسٹ گلوبل میوزک پرفامنس ایوارڈ جیتنے سے پہلے بہت کم پاکستانی عروج آفتاب کے نام سے واقف تھے۔ لیکن انہیں جس غزل پر یہ ایوارڈ ملا وہ شائقین موسیقی کے لیے اجنبی نہ تھا۔ حفیظ ہوشیارپوری کی انتہائی خوبصورت غزل مہدی حسن اور فریدہ خانم بہت پہلے سے گا چکے تھے۔ مہدی حسن کے مخصوص انداز میں یہ غزل ایسا گہرا اثر چھوڑتی ہے کہ آپ کسی اور آواز میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

ایوارڈ وصول کرنے کے بعد اپنی تقریر میں مہدی حسن کا نام تک نہ لینے پر عروج آفتاب کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ شاید یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ انہوں نے   مہدی حسن کی ترتیب دی ہوئی ”میلوڈی“ برقرار رکھتے ہوئے جدید سازوں کی مدد سے اس غزل کو محض ”ری ارینج " کیا تھا۔ 

5. محرم

چھاؤں تھی تیرے ساتھ کی

بے رحم دھوپ میں

دیوانہ وار پھروں

کھو کے اپنا سائباں

تو محرم نہ رہا

عروج آفتاب اور اسفر حسین کی آواز میں یہ گیت کوک سٹوڈیو سیزن 14 کے لیے ریکارڈ کیا گیا تھا۔ کوک سٹوڈیو کے بیشتر گیتوں کی طرح یہ بھی بے ڈھنگی شاعری اور بے رس موسیقی کا شاہکار ہے۔ لیکن کیوں کہ یہ کوک سٹوڈیو کے ساتھ ان کا اکلوتا کام ہے اس لیے اس کا ذکر ضروری تھا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔