1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب تاجر پیشہ خاندانوں میں نیا رجحان

Kishwar Mustafa3 جولائی 2013

گلوبل مارکیٹ کے مقابلے کی دوڑ میں آگے نکلنے کی خواہش رکھنے والے عرب تاجر پیشہ خاندان اپنی نوجوان نسل کو بہتر سے بہتر تعلیمی مواقع فراہم کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/191Jd
تصویر: AFP/Getty Images

یورپی خاندانی تاجروں کے مقابلے میں خاندانی طور پر عرب تاجر پیشہ افراد کہیں جوان ہوتے ہیں۔ تجارت صدیوں سے عربوں کا خاندانی پیشہ ہے تاہم چند شعبوں میں اب بھی عرب تاجروں کا تجربہ کافی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر بینک، توانائی اور پراپرٹی کے شعبوں میں عرب تاجروں نے 19 ویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں قدم رکھا تھا۔ جبکہ مغربی نو آبادی تاجروں نے عربوں سے پہلے ان شعبوں میں تجارت شروع کر دی تھی۔

عرب نوجوان تاجر تجارت کے پیشے کو اپنا ورثہ سمجھتے ہوئے اس پر فخر کرتے ہیں۔ ریاض کی کِنگ سعود یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ علی العثیم نے بینک آف امریکا کے ایک ذیلی ادارے Merrill Lynch سے ایک پیشہ ورانہ تربیتی کورس مکمل کیا ہے۔ وہ اس وقت سعودی عرب کے ایک کامیاب آجر اور ملک کے نوجوان تاجروں کی نیشنل کمیٹی کے صدر ہیں۔ وہ ایک تاجر خاندان کے چشم و چراغ ہونے پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، ’’جو نوجوان تاجر پیشہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس شعبے میں ایسے نوجوانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ مہارت حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن کا خاندانی تجارت کا پس منظر نہیں ہوتا۔‘‘

Deutsch arabische Handelsbeziehungen
جرمنی اور عرب ممالک کے تجارتی تعلقات پرانے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

گلوبل مارکیٹ کے مقابلے کی دوڑ میں آگے نکلنے کی خواہش رکھنے والے عرب تاجر پیشہ خاندان اپنی نوجوان نسل کو بہتر سے بہتر تعلیمی مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ خالد راشد الزیانی بحرین سے تعلق رکھنے والے ایک انویسٹمنٹ گروپ کے سربراہ ہیں۔ ان کے بقول ان کے خاندان میں نوجوان تاجروں کے لیے سخت اصول و ضوابط پائے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ اگر یہ کسی آجر کے ساتھ کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو انہیں ہر حال میں برطانیہ یا امریکا سے تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے۔ وہاں سے یہ ماسٹرز ڈگری حاصل کر تے ہیں اور اُس کے بعد کم از کم دو سال کسی آجر کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ حاصل کرتے ہیں۔ اُس کے بعد یہ بحرین واپس آتے ہیں۔‘‘

مکمل ادراک اور نظم و ضبط

عرب نوجوان آجرین اور تاجروں کو پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ مغربی ثقافت سے ہم آہنگ ہونے کی مکمل تربیت دی جاتی ہے۔ عرب تاجروں کو مستقبل میں اپنے کاروباری پارٹنرز کی نگاہ میں اپنی قدر و قیمت بڑھانے کے لیے پورے طور سے خود کو اُن کے پیشہ ورانہ طور طریقے میں ضم کرنا پڑتا ہے اور یہ سب کچھ وہ اُن ممالک میں رہ کر ہی کر سکتے ہیں۔

خالد راشد الزیانی کا تاہم کہنا ہے کہ محض امیر خاندان کا رکن ہونا اس پیشے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں بلکہ ان نوجوانوں کو زندگی کے مختلف چیلنجز سے گزرتے ہوئے اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرنا پڑتی ہے۔

Saudi-Arabien und Öl
خلیجی تیل دنیا کی سیاست پر گہرے اثرات کا حاملتصویر: AP

اس وقت دنیا بھر کے آجرین عرب نوجوان آجرین کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ جرمنی کے آجرین کی ایک مشاورتی کمپنی Ernst & Young سے تعلق رکھنے والے پیٹر بروک کہتے ہیں، ’’ یہ معاملہ ہے خلیجی ممالک میں بڑھتے ہوئے صنعتی رجحان کا یعنی تیل سے ماورا۔ اس ضمن میں جرمن متوسط طبقہ اور کمپنیاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ جرمن آجرین اپنے عرب پارٹنرز کی توجہ تیل سے ہٹ کر اب زیادہ سے زیادہ صنعتی ترقی کی طرف مبذول کر وا رہے ہیں اور اس کے لیے مارکیٹ کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ عرب خاندانی آجر اب کافی حد تک اس کے قائل ہو گئے ہیں۔ وہاں بے تحاشہ صنعتی ترقی کی بے تحاشہ صلاحیتیں اور مواقع موجود ہیں۔‘‘

k.Knipp.H.Henrick/km/ai