1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: پرتشدد واقعات میں متعدد افراد ہلاک، سینکڑوں زخمی

30 اگست 2022

بااثر شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کے سیاست چھوڑنے کے اعلان کے بعد سے بغداد میں پرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک تقریباً 20 افراد ہلاک اور تین سو سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4GCVc
Irak Protest
تصویر: Hadi Mizban/AP Photo/picture alliance

عراق کے طاقتور شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدرنے پیر کے روز سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لینے اور ملک میں جاری سیاسی تعطل کی وجہ سے اپنے تمام اداروں کو بند کر دینے کا اعلان کیا، جس کے بعد سے ان کے ناراض حامی سڑکوں پر اتر آئے۔

 کل سے جاری پرتشدد واقعات میں اب تک کم از کم 20 افراد کے ہلاک اور 350 دیگر کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

اطلاعات کے مطابق پرتشدد مظاہرین نے بغداد میں انتہائی سکیورٹی والے علاقے گرین زون میں واقع سرکاری عمارت ری پبلیکن پیلیس پر بھی دھاوا بول دیا۔ خونریز جھڑپوں میں دو عراقی فوجیو ں کی ہلاکت کی بھی خبریں ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل داغے۔ تشدد کا سلسلہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا ہے۔

مقتدی الصدر کے ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کیا ہے
مقتدی الصدر کے ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کیا ہےتصویر: Alaa Al-Marjani/REUTERS

مقتدیٰ الصدر نے سیاست چھوڑنے کا اعلان کیوں کیا؟

مقتدیٰ الصدر نے ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا، "میں نے سیاسی امور میں حصہ نہیں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں اب حتمی طورپر سیاست سے اپنی سبکدوشی کا اعلان کرتا ہوں۔"  انہوں نے مزید کہا، "اگر میں مر جاؤں یا قتل کر دیا جاؤں تو آپ میرے لیے دعا کریں۔"

مقتدیٰ الصدر ایک عرصے سے عراق کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ وہ تاہم اصلاحات کی اپنی اپیلوں پر ساتھی شیعہ رہنماؤں کی جانب سے تعاون نہیں ملنے پر نالاں بھی ہیں۔

اپنے دفاتر کو بند کرنے کی کوئی وجہ بتائے بغیر الصدر کا کہنا تھا کہ ان کے بعض ثقافتی اور مذہبی ادارے کام کرتے رہیں گے۔

عراق: مقتدیٰ الصدر نے مذاکرات مسترد کر دیے اور انتخابات کا مطالبہ کر دیا

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مقتدیٰ الصدر نے سیاست سے سبکدوشی کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ سے ان کا ناقدین کا کہنا ہے کہ پیرکے روز انہوں نے جو اعلان کیا اس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔

جیسے ہی ان کے حامیووں اور مخالف گروپوں کے درمیان تصادم کی خبریں آنی شروع ہوئیں، مقتدیٰ الصدر نے بھوک ہڑتال کا اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک تصادم کا سلسلہ بند نہیں ہو جاتا وہ بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے۔

تشدد کا سلسلہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا ہے
تشدد کا سلسلہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا ہےتصویر: Hadi Mizban/AP/dpa/picture alliance

ملک گیر کرفیو کا اعلان

عراقی فوج نے ملک گیر کرفیو کا اعلان کیا ہے جب کہ  وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے کابینہ کے اجلاس معطل کر دیے ہیں۔ انہوں نے سکیورٹی فورسز اور فوج یا مسلح عہدیداروں سے "مظاہرین پر فائرنگ کرنے سے گریز کرنے" کی اپیل کی۔

عراق میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم آئی) نے نئی پیش رفت کو انتہائی خطرناک قرار دیا اور تمام فریقین سے کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنے کا مشورہ دیا جس کے نتیجے میں ناخوشگوار واقعات کا لامتناہی سلسلہ نہ شروع ہو جائے۔

عراق: بغداد میں مقتدیٰ الصدر کے حامیوں نے پارلیمنٹ کی عمارت پر دھاوا بول دیا

امریکہ نے بھی عراق میں متحارب سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات پر زور دیا ہے تاکہ صورت حال پر امن رہے اور سیاسی اختلافات تشدد کی شکل اختیار نہ کر جائیں اور موجودہ کشیدگی مزید عدم استحکام میں تبدیل نہ ہو جائے۔

امریکہ نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ بغداد میں امریکی سفارت خانہ خالی کر دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ اکتوبر میں پارلیمانی انتخابات میں الصدر کی جماعت سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی تاہم وہ حکومت بنانے میں ناکام رہی۔ انہوں نے ایرانی حمایت یافتہ اپنے حریفوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے ا نکار کردیا تھا جس کے بعد سے ہی ملک میں سیاسی غیر یقینی کی صورت حال ہے۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)