1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: وزیر اعظم کے لیے نامزد محمد علاوی نے اپنا نام واپس لیا

2 مارچ 2020

عراق کے نئے وزیر اعظم کے لیے نامزد امیدوار محمد علاوی نے اپنی امیدواری واپس لے لی ہے۔ یہ پیش رفت علاوی کی مجوزہ کابینہ کی منظوری کے لیے پارلیمان کا اجلاس ملتوی کردیے جانے کے چند گھنٹے بعد ہوئی۔

https://p.dw.com/p/3YiKG
Der ehem. irakische Kommunikationsminister Mohammed Tawfiq Allawi
تصویر: picture-alliance/AA/IRAQI PRESIDENCY PRESS OFFICE

محمد علاوی نے بطور امیدوار اپنا نام واپس لینے کی اطلاع ٹوئٹر پر دیتے ہوئے کہا، ”بعض سیاست دان میری راہ میں روڑے اٹکا رہے تھے۔“

علاوی نے عراقی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا، ”اگر میں مراعات دینے پر رضامند ہوجاتا تو میں اس وقت وزیر اعظم ہوتا۔ لیکن میں نے ملک کو ممکنہ پریشانیوں سے بچانے اور موجودہ بحران کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ تاہم بات چیت کی راہ میں متعدد رکاوٹیں حائل ہوگئیں۔“

صدر برھم صالح آئندہ پندرہ دنوں کے اندر وزیر اعظم کے نئے امیدوار کے انتخاب کے حوالے سے با ت چیت شروع کرسکتے ہیں۔

علاوی کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدہ کی دوڑ سے دست بردار ہوجانے کے اعلان اس وقت کیا گیا جب ان کی کابینہ کی تشکیل کے لیے پارلیمنٹ کا مکمل اجلاس منعقد کرنے کی دو کوششیں ناکام ہوگئیں۔ اتوار یکم مارچ کو ہونے والی میٹنگ میں پارلیمنٹ کے 329 اراکین میں سے صرف 108اراکین ہی شریک ہوسکے۔

صدر برھم صالح نے سابق وزیر مواصلات محمد علاوی کو فروری میں وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے اس وقت نامزد کیا تھا جب ایک دوسرے کی  مخالف سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمان عبدالمہدی کے جانشین پر متفق ہونے میں ناکام ہوگئے تھے۔ عبدالمہدی نے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد دسمبر میں وزیر اعظم کے عہدہ سے استعفی دے دیا تھا۔ اس دوران  مہدی عبوری وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔

علاوی کو حکومت سازی کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیا تھا اوریہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ جلد از جلد انتخابات کرائیں گے۔

عراقی دارالحکومت بغداد میں گزشتہ کئی مہینوں سے حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ علاوی کی طرف سے پیش کردہ اصلاحات اور بدعنوانی مخالف پالیسیوں پر سخت نکتہ چینی کی گئی تھی اور مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ پالیسیاں کافی نہیں ہیں۔ مظاہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ علاوی کا انتخاب عوام نے نہیں بلکہ سیاسی اشرافیہ نے کیا ہے۔

Iraks Protest gegen Premierminister Tawfiq Allawi
عراقی دارالحکومت بغداد میں گزشتہ کئی مہینوں سے حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ تصویر: AFP/A. Niazi

یہ امر قابل ذکر ہے کہ پانچ ماہ سے جاری احتجاجی مظاہروں کے دوران کم از کم 550 افراد ہلاک اور 30 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ عراق اس وقت سیاسی عدم استحکام کے علاوہ ایران اور امریکا کے درمیان جاری کشیدگی میں بھی پھنسا ہوا ہے۔


بغداد میں راکٹ حملہ

علاوی کی طرف سے امیدواری سے دست بردار ہوجانے کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی دارالحکومت بغداد کے گرین زون میں دو راکٹ گرے۔ ایک راکٹ امریکی سفارت خانہ کے قریب گرا۔  اکتوبر کے بعد سے امریکی اثاثوں کو نشانہ بنائے جانے کی کوشش میں یہ تازہ واقعہ ہے۔  ان حملوں کی ذمہ داری کسی نے نہیں لی ہے تاہم امریکا ان حملوں کے لیے ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروپ حاشد الشابی کوذمہ دار ٹھہراتا ہے، جو کہ عراقی حکومت کی اعانت یافتہ تنظیم ہے۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔
ج ا / ا ب ا (اے پی، ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)