1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں ایرانی کرد گروپوں پر ایران کے میزائل اور ڈرون حملے

15 نومبر 2022

ایران نے عراق کے حزب اختلاف کرد گروپوں پر پیر کے روز میزائل اور ڈرون سے حملے کیے، جن میں کم از کم ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ تہران کا الزام ہے کہ کرد ایرانی اپوزیشن گروپ ایران میں 'فسادات' کو ہوا دینے میں ملوث ہیں۔

https://p.dw.com/p/4JWiw
Irak Erbil | Zerstörung nach ANgriffen der iranischen Revolutionsgarde auf Kurdenregion
تصویر: Fariq Faraj/AA/picture alliance

ایران نے ستمبر میں بھی ان گروپوں کو حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔ جس کے نتیجے میں عراق کے خودمختار کردستان علاقے میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہو  گئے تھے۔

عراقی کردستان میں کوئی سنجق شہر کے میئر طارق الحیدری نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ پیر کے روز کیے جانے والے حملوں میں ''پانچ ایرانی میزائلوں نے ایک عمارت کو ہدف بنایا جو کردستان ڈیموکریٹک پارٹی آف ایران کے زیر استعمال ہے۔"

خود مختار کردستان کی وزارت صحت نے کہا کہ حملے میں ''ایک شخص ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے۔ یہ سب  ایرانی کرد  تھے۔"

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایرانی حملے کے بعد کردستان کے پہاڑی علاقے میں جائے وقوعہ سے دھواں اٹھ رہا ہے۔

عراق: امریکی فوجی اڈے پر راکٹ حملے

ایرانی کرد قوم پرست گروپ کوملہ کے رہنما عطا سیقزی کا کہنا تھا کہ ڈرون سے کیے گئے ایک اور حملے میں زرگوئز علاقے میں ایرانی کمیونسٹ پارٹی اور کوملہ کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کرد گروپوں کو حملے کے حوالے سے خبردار کر دیا گیا تھا اور گروپوں نے اپنے اپنے ٹھکانے خالی کردیے تھے، لہذا "کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔"

عراقی وزارت خارجہ نے بعد ازاں ایرانی حملوں کی ''شدید مذمت" کرتے ہوئے کہا کہ"عراقی خود مختاری کی خلاف ورزی" ہوئی ہے۔

خود مختار کردستان کی وزارت صحت نے کہا کہ حملے میں ایک شخص ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے
خود مختار کردستان کی وزارت صحت نے کہا کہ حملے میں ایک شخص ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئےتصویر: AFP/Getty Images

ایران نے حملوں کی تصدیق کی

 ایران میں پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل محمد تقی اوسنلو نے حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا،"ہم نے سرحد کے قریب اور سرحد سے 80 کلومیٹر دور اہداف کو میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا۔"

انہوں نے کہاکہ جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا وہ"دہشت گرد تھے اور گزشتہ چند ماہ سے فسادات میں کافی فعال تھے۔"

ستمبر کے وسط میں ایک 22 سالہ کرد ایرانی خاتون کی ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست کے دوران ہلاکت کے بعد سے ہی پورے ایران میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری  ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے مہسا امینی نامی خاتون کوحجاب قانون کی مبینہ خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا تھا۔

اسلامی جمہوریہ ان مظاہروں کو 'فسادات' قرار دیتا ہے۔

سرکاری ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے جنرل اوسنلو نے خبردار کیا کہ اگر عراقی کرد حکام نے ایرانی کرد گروپوں کو وہاں سے نہ نکالا تو مزید حملے کیے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ،"ہم پہلے ہی مقامی حکومت سے مداخلت کی درخواست کر چکے ہیں، لیکن اس نے کچھ نہیں کیا۔"

ایرانی وزارت خارجہ کا استدلال ہے کہ سرحد پار تازہ فوجی کارروائی ایرانی علاقے میں "سلامتی کے تحفظ" کے لیے ضروری تھی۔

امریکہ نے ایرانی کارروائی کو "عراق کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی" قرار دیا
امریکہ نے ایرانی کارروائی کو "عراق کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی" قرار دیاتصویر: Nicholas Kamm/AP Photo/picture alliance

امریکہ کی جانب سے مذمت

عراق میں اقوام متحدہ مشن نے ان حملوں کی مذمت کی ہے۔ اس نے ایک بیان میں کہا کہ ایران کی جانب سے یہ تازہ میزائل اور ڈرون حملے عراق کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں۔

عراق میں ایرانی حمايت يافتہ ملیشیا کے خلاف امریکی کارروائی

بیان میں کہا گیا ہے، "دوسروں سے اپنا حساب چکانے کے لیے عراق کو میدان جنگ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کیا جانا چاہئے۔"

 امریکہ نے بھی ایرانی کارروائی کو "عراق کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی" قرار دیا۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا،"ہم ایران، جس نے عراق کی خود مختاری کی کئی بار اور کھلی خلاف ورزی کی، پر زور دیتے ہیں کہ وہ حملے بند کرے اور عراق کی علاقائی سلامتی کے لیے مزید خطرات پیدا کرنے سے گریز کرے۔"

ج ا / ص ز  (اے ایف پی)