1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: مرکزی مسيحی شہر پر بھی اسلامک اسٹيٹ کی چڑھائی

عاصم سليم7 اگست 2014

عراق ميں اسلامک اسٹیٹ نامی تنظیم کے جہاديوں نے ملک ميں سب سے بڑی مسيحی آبادی کے حامل شہر اور اس کے اطراف پر قبضہ کرتے ہوئے ہزاروں افراد کو نقل مکانی پر مجبور کر ديا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CquL
تصویر: Reuters

بد امنی اور فرقہ وارانہ فسادات کے شکار ملک عراق ميں سنی انتہا پسندوں کی تنظيم اسلامک اسٹيٹ کے جہاديوں نے ملک ميں سب سے بڑی اور قريب مکمل طور پر مسيحی آبادی کے حامل شہر قراقوش اور اس کے نواحی علاقوں پر قبضہ کر ليا ہے۔ پيش مارگا نامی کرد دستوں کے پيچھے ہٹنے کے بعد اسلامک اسٹيٹ کے جنگجوؤں نے قراقوش اور ديگر شہروں پر چڑھائی بدھ اور جمعرات کی درميانی شب کی۔

عراقی وزير اعظم نوری المالکی
عراقی وزير اعظم نوری المالکیتصویر: Reuters

نيوز ايجنسی اے ايف پی سے بات کرتے ہوئے کرکوک اور سليمانيہ کے آرچ بشپ جوزف تھومس نے بتايا ہے کہ قراقوش کے علاوہ تل کيف، برتيلہ اور کرمليش نامی ديگر شہروں کو خالی کرا ليا گيا ہے اور ان شہروں پر اب جہاديوں کا قبضہ ہے۔ قراقوش کی آبادی قريب پچاس ہزار ہے اور وہاں رہنے والے قريب تمام افراد کا تعلق مسيحی مذہب سے ہی ہے۔ يہ شہر عراق ميں سرگرم اسلامک اسٹيٹ کے جہاديوں کے گڑھ موصل اور کرد خطے کے صدر مقام اربل کے بيچ ميں واقع ہے۔

آرچ بشپ جوزف تھومس نے صورتحال کو ايک سانحے سے تعبير کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کيا ہے کہ وہ فوری طور پر اس معاملے ميں مداخلت کرے۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’اس وقت بھی ہزاروں خوف زدہ لوگ پناہ کی تلاش ميں نقل مکانی کر رہے ہيں۔ صورتحال ناقابل بيان ہے۔‘‘

عراق کی مسيحی برادری و ديگر اقليتوں کے ليے سرگرم فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں قائم ايک ايسوسی ايشن کے سربراہ فراج بينيوں کيموات کے بقول يہ 2003ء کے بعد سے عراقی مسيحيوں کے ليے سب سے بڑا سانحہ ہے۔

کرد فورسز پيش مرگا کے ترجمان کے بقول ان کی افواج قراقوش اور شمال ميں واقع ايک اور شہر القوش اور ديگر کچھ مقامات پر اسلامک اسٹيٹ کے جنگجوؤں کے خلاف اس وقت بھی برسرپيکار ہيں۔ تاہم اس کی تاحال آزاد ذرائع يا عينی شاہدين سے تصديق نہيں ہو پائی ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ اسلامک اسٹيٹ کے شدت پسندوں نے نو جون کو شمالی عراق ميں اپنی پر تشدد کارروائيوں کا آغاز کيا تھا اور انہوں نے دوسرے ہی روز موصل اور ديگر کئی شمالی عراقی شہروں پر قبضہ کر ليا تھا۔ تازہ پيشرفت کے بعد اب اس تنظيم کے جنگجو کردوں کی علاقائی حکومت کی حدود کی سرحد سے صرف بيس کلوميٹر اور ان کے مرکزی شہر اربل سے صرف چاليس کلوميٹر کے فاصلے پر ہيں۔

پاپائے روم فرانسس نے جمعرات کو جاری کردہ ايک بيان ميں عالمی برادری سے اپيل کی ہے کہ شمالی عراق ميں مسيحيوں کے تحفظ کے ليے عملی اقدامات کيے جائيں۔