1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق سے متعلق یورپی یونین کی بدلتی خارجہ پالیسی

امتیاز احمد15 اگست 2014

پہلے یورپی یونین عراق کو صرف امریکا کا مسئلہ سمجھتی تھی لیکن اب فرانس کی طرف سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ IS کے عسکریت پسندوں کے خلاف کُردوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا فیصلہ یورپ کی عراق سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کی اہم وجہ بنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CvJN
تصویر: picture alliance / AP Photo

سن 2003ء میں عراق میں امریکی مداخلت کے بعد یورپی یونین میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے اور متعدد یورپی ملکوں نے امریکا کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ تب سے یورپی یونین عراق میں مداخلت سے پرہیز کی پالیسی اپنائے ہوئے تھی لیکن اب صورتحال بدلتی نظر آ رہی ہے۔ شام اور عراق کے شدت پسند گروپ پورے مشرق وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کر دینے کی کوششوں میں ہیں جبکہ یورپ کے تقریباﹰ 17 سو عسکریت پسند اس وقت شام اور عراق میں لڑائی میں مصروف ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصے سے عراق کی روز بروز بگڑتی ہوئی صورتحال دنیا بھر کی توجہ کا مرکز رہی ہے جبکہ یورپی یونین عراق کو خاص طور پر صرف امریکا کا مسئلہ سمجھتی رہی ہے۔ اب وہاں اسلامک اسٹیٹ کی پیش قدمی اور بڑے پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی کے بعد یورپ نے بھی عراق کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اپنی چھٹیاں مختصر کرتے ہوئے آج ایک ہنگامی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں تاکہ عراق کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جا سکے۔

ایک یورپی سفارت کار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ گفتگو میں کہنا تھا، ’’عراق کے بارے میں فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ عراق کی صورتحال کنٹرول سے باہر ہوتی اور یورپی یونین کے لیے خطرہ بھی بنتی جا رہی ہے۔‘‘ یورپی حکام کے مطابق صرف فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے تقریباﹰ 17 سو مسلمان عسکریت پسند مشرق وسطیٰ میں جہادی گروپوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔

تیرہ اگست بدھ کے روز فرانس نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کے خلاف کُردوں کو ہتھیار فراہم کرے گا۔ برطانیہ نے چینُوک ہیلی کاپٹر بھیجنے کا اعلان کیا تھا جبکہ جرمنی سے غیر مہلک فوجی ساز و سامان، مثال کے طور پر بکتر بند گاڑیاں، فراہم کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ قبل ازیں جون میں جرمنی نے کہا تھا کہ عراق کے حوالے سے امریکا پر ’خصوصی ذمہ داری‘ عائد ہوتی ہے اور ایسا کوئی بھی اشارہ دینے سے گریز کیا گیا تھا کہ جرمنی عراق میں کسی بھی طرح کی مداخلت کے لیے تیار ہے۔

آج کے ہنگامی اجلاس میں یورپی وزرائے خارجہ انسانی بنیادوں پر امداد اور اسلحے کی فراہمی کے حوالے سے مشترکہ عراق پالیسی کا فیصلہ کریں گے۔ یہ فیصلہ بھی کیا جائے گا کہ اسلحہ براہ رست کُردوں کو فراہم کیا جائے گا یا بغداد حکومت کے ذریعے۔