1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عدالتی کمیشن کے متعلقہ فریقین کو ایک بار پھر نوٹس جاری

2 جنوری 2012

متنازع میمو کی تحقیقات کے لیے قائم عدالتی کمیشن نے لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا، امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر جنرل جیمز جونز، منصور اعجاز اور حسین حقانی کو کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لیے دوبارہ نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/13cxv
تصویر: dapd

کمیشن نے سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر کو بھی ہدایت کی کہ وہ امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی اور پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصور اعجاز کے درمیان ملاقاتوں کے حوالے سے ریکارڈ پیش کریں۔ 

عدالتی کمیشن کا پہلا اجلاس پیر کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کی عمارت میں ہوا۔ اجلاس کی سربراہی چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس فائز عیسیٰ  نے کی جبکہ جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ  اقبال حمید الرحمٰن اور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس مشیر عالم نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔

اجلاس کے موقع پر سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے کمیشن کو بتایا کہ حسین حقانی اور منصور اعجاز کے درمیان ملاقات کا کوئی سرکاری ریکارڈ  موجود نہیں۔ اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ  کمیشن نے منصور اعجاز اور حسین حقانی کے زیر استعمال  موبائل اور کمپیوٹرز کے ذریعے ہونے والے پیغامات اور ای میلز کا ریکارڈ طلب کیا ہے۔

Sicherheitsberater James Jones
کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لیے امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر جنرل جیمز جونز کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہےتصویر: AP

اٹارنی جنرل نے کہا، ’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہمارے یہاں پر جو ایف آئی اے، آئی ایس آئی اور پی ٹی اے اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں مقامی ماہرین ہیں، ان سے پتا کیا جائے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات میں عدالت کو کیا معاونت فراہم کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس کا پبلک نوٹس بھی پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے اخبارات میں جاری کیا جائے گا۔‘‘

خیال رہے کہ حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کمیشن کے سامنے اپنے مؤکل کی وکالت سے انکار کر دیا ہے۔ کمیشن نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ حسین حقانی کو نہ صرف مناسب سکیورٹی فراہم کرے بلکہ انہیں وکیل مقرر کرنے کا موقع بھی دیا جائے۔ کمیشن نے یہ ہدایت بھی کی کہ اگر منصور اعجاز کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لیے پاکستان آئیں تو انہیں بھی مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے۔

ادھر بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر جیمز جونز کمیشن کے سامنے پیش ہو گئے تو حسین حقانی کو اپنے دفاع میں مدد ملے گی لیکن اگر جنرل جیمز جونز پاکستان نہ آئے تو صورتحال مختلف ہوگی۔ اس بارے میں جسٹس (ر) طارق محمود کا کہنا تھا، ’’جہاں تک جنرل جونز کا تعلق ہے اس کا اثر مجھے یہ نظر آ رہا ہے کہ حسین حقانی نے چونکہ ان کا بیان حلفی داخل کیا تھا لیکن اگر جنرل جونز آ کر پیش نہیں ہوتے تو اس کا اثر یہ ہو گا کہ وہ بیان حلفی جو سپریم کورٹ میں داخل کیا گیا تھا وہ مکمل طور پر غیر متعلقہ ہو جائے گا، تو اس کی اہمیت ہے ۔‘‘

Pakistan USA Botschafter Husain Haqqani
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی، جو میمو گیٹ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھےتصویر: AP

متنازع میمو کی تحقیقات کے لیے قائم عدالتی کمیشن کا  آئندہ اجلاس نو جنوری کو ہو گا۔

سپریم کورٹ نے اس کمیشن کو کام کی تکمیل کے لیے چار ہفتے کا وقت دے رکھا ہے، تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پہلے ہی اجلاس میں اہم فریقین کی غیر حاضری اور انتہائی حساس ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے درکار وقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ شاید یہ کمیشن کام مکمل کرنے کے لیے چار ہفتے سے زائد کا وقت بھی  لے سکتا ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں