عباس کی حماس کے ساتھ مصالحتی کوششیں، اسرائیل ناراض
23 دسمبر 2011ایک اسرائیلی وزیر نے تو دونوں بڑی لیکن حریف فلسطینی تنظیموں کے درمیان ایک دوسرے کے قریب آنے کی ان کوششوں کی وجہ سے یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ اسرائیل کو مقبوضہ مغربی اردن میں قائم یہودی بستیوں کو اسرائیلی ریاست کا باقاعدہ حصہ بنایا جانا چاہیے۔
محمود عباس اور حماس کے رہنما خالد مشعل کے درمیان قاہرہ میں کل جمعرات کو جو مذاکرات ہوئے تھے، ان کے بارے میں بعد میں حماس کے رہنما نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا تھا کہ یہ بات چیت بہت ہی اچھے ماحول میں ہوئی۔
خالد مشعل کے مطابق اس ملاقات میں دونوں لیڈروں کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے ہو گیا تھا کہ وہ ایک ایسا عمل شروع کریں گے جس کے تحت دو بڑے مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ ان بڑے مقاصد میں سے ایک سے مراد وہ فلسطینی الیکشن ہیں جن کے انعقاد میں پہلے ہی بڑی تاخیر ہو چکی ہے۔ دوسرا مقصد مختلف فلسطینی گروپوں کے اتحاد تنظیم آزادیء فلسطین یا پی ایل او میں اس طرح اصلاحات لانا ہے کہ اس میں اسلام پسند حماس کی شمولیت بھی ممکن ہو سکے۔
قاہرہ میں ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ترجمان Mark Regev نے کہا کہ غزہ پٹی کے علاقے میں حکمران اسلام پسند تنظیم حماس کے ساتھ محمود عباس کے کسی بھی معاہدے کا مطلب یہ ہو گا کہ فلسطینی صدر قیام امن میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ نیتن یاہو کے ترجمان کے بقول حماس کوئی ایسی سیاسی تنظیم نہیں ہے جو دہشت گردی بھی کرتی ہے۔ ترجمان نے دعویٰ کیا کہ حماس ایک ایسا فلسطینی گروپ ہے جو صرف اور صرف دہشت گرد ہے۔
وزیر اعظم نیتن یاہو کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ فلسطینی صدر عباس جتنا حماس کے قریب ہوتے جائیں گے، اتنا ہی وہ امن سے بھی دور ہوتے جائیں گے۔
اسی دوران اسرائیلی وزیر ٹرانسپورٹ Katz نے کہا ہے کہ اسرائیل کو قاہرہ میں اس ملاقات پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے مغربی اردن کے علاقے میں یہودی بستیوں کو اسرائیلی ریاست کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا یہ فیصلہ یکطرفہ ہونا چاہیے، جیسے اس نے ماضی میں شام کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں اور عرب مشرقی یروشلم کو اپنے ریاستی علاقے کا حصہ بنا کر کیا تھا۔
اس وزیر نے اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا، ’اسرائیل کو ایران کی حمایت یافتہ اس دہشت گرد تنظیم کی وجہ سے اپنے شہریوں کو لاحق خطرات کے خاتمے اور ان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہر طرح کے اقدامات کرنے چاہیئں۔‘
یروشلم سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اسرائیل کو اس بارے میں بڑی تشویش ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران محمود عباس کی فتح تحریک نے، جو اپنی سوچ میں سیکولر ہے، حماس کے ساتھ مصالحت کے لیے اپنی کوششوں میں بہت اضافہ کر دیا ہے۔
محمود عباس اور خالد مشعل کے درمیان پچھلے ایک مہینے میں تین مرتبہ ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد اس باہمی معاہدے پر عمل درآمد کو ممکن بنانا ہے جس پر دونوں رہنماؤں نے اس سال مئی میں اچانک دستخط کر دیے تھے۔ فلسطینیوں کے یہ دونوں اہم دھڑے سن 2007 میں اس وقت سے ایک دوسرے کے حریف ہیں جب سے غزہ پٹی پر حماس کی حکومت چلی آ رہی ہے۔ یوں غزہ پٹی اور مغربی اردن دونوں فلسطینی خود مختار علاقوں میں حریف فلسطینی گروپوں کو اقتدار حاصل ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: امجد علی