1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عبادت گاہوں کی آزادی بھی کتنی بڑی نعمت ہے

من میت کور
11 اگست 2020

’’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو۔

https://p.dw.com/p/3gmHa
Pakistan | Bloggerin | Manmeet Kour
تصویر: privat

ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مختلف قوموں اور برادریوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہو گا۔ ہم سب ایک ہی ریاست کے شہری ہیں۔‘‘ یہ الفاظ ادا کیے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کراچی میں پہلی دستور ساز اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران۔ اور یہ وہ کلمات بن گئے کہ جس کی بدولت آج اس ریاست کے قیام کو سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے۔ یہ الفاظ تو یہاں رہنے والی اقلیتوں کے لیے ڈھال بن گئے۔

میں منمیت کور، جو اس فخر کے ساتھ یہ کہتی اور مانتی ہوں کہ میں پاکستانی ہوں۔ جو نام اور عزت ملی، وہ سب اسی ملک کی دین ہے۔ میں پشاور میں پیدا ہوئی یہیں تربیت پائی۔ زمانہ طالب علمی یاد ہے، بچپن میں قائد اعظم کی ان کلمات کو جب پڑھتی تھی تو اس وقت شاید اتنی سمجھ نہیں تھی کہ محمد علی جناح نے کیا بات کہی ہے، بلکہ شاید مجھ سمت میرے کچھ کلاس فیلوز بھی رٹا لگا لگا کر ان کلمات کو یاد کرتے تھے۔  مگر جب میں آج بڑی ہو گئی ہوں، زندگی کے معاملات کو عملی طور پر دیکھ رہی ہوں، ان سے گزر رہی ہوں تو محمد علی جناح کا ایک ایک لفظ اور اس کی گہرائی سمجھ میں آنے لگی ہے کہ عبادت گاہوں میں عبادت کرنے کی آزادی بھی کتنی بڑی نعمت ہے۔ اس نعمت کی خوشی اس وقت اور بھی بڑھ گئی، جب گزشتہ برس وزیرا عظم پاکستان عمران خان نے کرتارپور راہدی کا افتتاح کیا، وہ خوشی میں نے روحانی طور پر بھی محسوس کی۔

ایک جانب تو یہاں مذہبی اقلیتوں کو ان کی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی ہے تو اسی لمحے کے لیے میرا دل یہ سوچ کر ڈوبنے لگتا ہے کہ جموں کشمیر کے مسلمانوں پر کیا بیتی ہو گی۔ آخر کو تو وہ وہاں کی اقلیت میں شمار ہوتے ہیں۔ انہیں ان کی عبادت گاہوں میں جانے کی آج کل وہ آزادی نہیں۔ کرفیو کے حالات میں خوشی اور غم کے تہوار کیسے مناتے ہوں گے؟ نہ شادیوں میں وہ رونق اور خوشیاں اور نہ ہی غم میں پیار کرنے والے اکھٹے ہوں گے۔ ایسا تو کوئی بھی نہیں چاہتا کہ انسان خوشی اور غم میں بھی تنہا ہی رہے؟

یہ بھی پڑھیے:

پاکستان کے یہودی ووٹر کہاں گئے؟

مسلم آئمہ کے بعد اقلیتی مذہبی پیشواؤں کے لیے بھی ماہانہ وظیفہ


یہاں بھی کبھی کبھار محض چند لوگ شرارتیں کرتے ہیں، دلوں کو میلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ مٹھی بھر لوگ کامیاب نہیں ہو پاتے۔ شاید اس کی وجہ بھی قائد کی وہ تقریر ہے، جو میں نے بچپن میں رٹے لگا کر یاد کی تھی کہ آپ آزاد ہیں، اپنی مساجد میں عبادت کرنے یا مندروں اور گرجا گھروں میں عبادت کرنے کے لیے۔ اس آزادی کا احساس مجھے ایک عام مسلمان پاکستانی کی طرح ہی ہر ماہ اگست میں ہوتا ہے۔ بچپن میں اس ماہ کے آغاز میں ہی ہم گلی محلوں میں رہنے والے بچے مل جھل کر سبز اور سفید رنگوں کی جھنڈیاں خریدتے۔ جس دن گلی محلوں اور گھروں کو سجانا ہوتا تو ہم اپنے مسلمان ہمسایوں کے گھر بھی سجاتے اور ہمارے مسلمان پڑوسی ہمارے گھر بھی انہی جھنڈیوں سے سجاتے، سب کچھ ہرے اور سفید رنگ میں رنگ جاتا۔

 ہمارے اساتذہ نے ہمیں بتایا کہ پاکستانی پرچم میں سبز رنگ مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے تو سفید رنگ بھی ہے، جو اقلیت کو ظاہر کر رہا ہے۔ یہ تو بچپن کا حال ہے مگر بڑے ہو جانے پر جب قائد کی تقریر کا مفہوم سمجھ آنے لگا تو آزادی کی قدر کا احساس سمجھ آنے لگا ہے۔ اور اسی ماہ سے جڑی اقلیتی برادری کے لیے مختلف تنظیموں کی جانب سے سجائی جانے والی تقاریب کا انعقاد بھی اس بات کی دلیل ہے کہ بلا کسی رکاوٹ کے جھنڈے کے سفید رنگ کے نمائندوں کو گیارہ اگست کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن ابھی بہت سا سفر طے کرنا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ دلوں کو میلا کرنے کی کوشش کرنے والوں کے راستے مسدود کیے جائیں اور  ان مٹھی بھر لوگوں کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ یہ پاکستان محمد علی جناح کا وہ پاکستان ہے، جہاں ''آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘